Maktaba Wahhabi

207 - 234
کہے: ’’اگر میں ایسے کر لیتا تو یوں ہو جاتا۔‘‘ تو ایسا کہنا شیطانی عمل ہے۔ کیونکہ اس میں دو حرام امور پائے جاتے ہیں: اول: اس سے انسان پر ندامت و ناراضگی ؛ اور حزن و ملال کے وہ دروازے کھلتے ہیں جن کو بند ہی رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ان میں کوئی فائدہ کی بات نہیں۔ دوم: ایسا کہنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کی مقرر کردہ تقدیر کے ساتھ بے ادبی ہے۔اس لیے کہ تمام کے تمام امور اور پیش آمدہ واقعات خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے؛ وہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے ہوتے ہیں۔ جو کچھ پیش آگیا؛ اسے ہر حال میں پیش آنا ہی تھا۔ اس کو ٹالنا کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا۔تو اب اس کا یہ کہنا کہ: اگر میں ایسے کر لیتا تو ایسے ہوجاتا ؛ یہ ایک قسم کا اعتراض ہے ؛ جو کہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پرکمزور ایمان کی نشانی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دونوں کام حرام ہیں۔ان کو ترک کئے بغیر انسان کا ایمان اور توحید مکمل نہیں ہوتے۔ محمود: اس کی صورت یہ ہے کہ انسان خیر و بھلائی کی تمنا کرتے ہوئے ؛ یا پھر علم اور خیر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس لفظ کا استعمال کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مجھے وہ بات پہلے سے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔ چنانچہ ہم حلال ہو گئے اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔‘‘[البخاری ۶۸۰۲ ؛ مسلم ۱۲۱۱۔] اور خیر و بھلائی کی تمنا کرنے والے آدمی کا قول: ’’ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح خرچ عمل کرتا۔‘‘[الترمذی ۲۳۲۵۔ ابن ماجہ ۴۲۲۸۔أحمد ۴/۲۳۱۔] اور حدیث میں ہے: ’’ اگر ہمارے بھائی موسی علیہ السلام صبر کرتے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں کے بارے میں بہت کچھ بتاتے۔‘‘ یعنی جو واقعہ حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اور ایسے ہی اگر انسان خیر وبھلائی کی تمنا میں اس کلمے کا استعمال کرے ؛ تو یہ بھی محمود ہے۔ اور اگر برائی کی تمنا میں اس کا استعمال کرے تو پھر مذموم ہے۔ پس اس سے پتہ چلا کہ لفظ ’’اگر‘‘ کا استعمال اس حال اور سبب پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر اس کے استعمال پر محمول کرنے والی چیز گریہ و غم اور حزن و ملال ہو ؛ اورقضاء و قدر پر ایمان کی کمزوری ہو؛یا برائی کی تمنا ہو تو پھر اس کلمے کا استعمال کرنا مذموم ہے۔ اور اگر اس کا سبب خیر و بھلائی میں رغبت ؛ اور ارشاد و تعلیم ہو تو پھر اس لفظ کا استعمال قابل تعریف یعنی محمود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ یہاں پر یہ باب قائم کیا ہے جس میں دونوں باتوں کا احتمال پایا جاتا ہے۔
Flag Counter