Maktaba Wahhabi

223 - 234
ذِمۃ اللّٰهِ،و ذِمۃ نبِیِہِ، ولِکنِ اجعل لہم ذِمتک وذِمۃ أصحابِک، فإِنکم أن تخفِروا ذِمتکم وذِمۃ أصحابِکم أہون مِن أن تخفِروا ذِمۃ اللّٰهِ وذِمۃ نبِیِہِ، وِإذا حاصرت أہل حِصن فأرادوک أن تنزِلہم علی حکمِ اللّٰهِ، فلا تنزِلہم علی حکمِ اللّٰهِ، ولِکن أنزِلہم علی حکمِکَ، فإِنک لا تدرِی تصِیب فِیہِم حکم اللّٰهِ أم لا؟۔))[1] ’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اُسی کا نام لے کر غزوہ کرو اور ہر شخص سے جنگ کرو جو اللہ تعالیٰ سے کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔ غزوہ کرو(اور یاد رکھو) نہ خیانت کرنا، نہ عہد و پیمان توڑنا، نہ کسی کو مثلہ کرنا اور نہ بچوں کو قتل کرنا۔ اور جب مشرک دشمن سے آمنا سامنا ہو تو اُس کے سامنے تین شرطیں پیش کرنا۔ اگر ان میں سے ایک بھی قبول کر لے تو اُسے منظور کر لینا۔ پھر جنگ سے رُک جانا۔ اسلام کی طرف دعوت دینا، اگر اُسے قبول کر لیں تو اس کو منظور کر لینا اور پھر انہیں دارالکفر سے دارُالسلام یعنی مہاجرین کے مقام(مدینہ طیبہ) کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دینا اور یہ بتانا کہ اگر یہ لوگ ہجرت کریں گے تو ان کو وہ سب حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور جو بار مہاجرین کو برداشت کرنا پڑتا ہے اُنہیں بھی برداشت کرنا ہو گا۔ اگر ہجرت سے انکار کریں تو پھر یہ لوگ اُن بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہوتا ہے اور ان کو مالِ غنیمت اور مالِ فئ میں سے حصہ نہیں ملے گا بجز اُس کے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں۔ اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو پھر اُن سے جزیہ طلب کرنا۔ اگر جزیہ دینے پر راضی ہو جائیں تو قبول کر لینا اور جنگ سے رُک جانا۔ اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ان سے جنگ کرنا۔ اور اگر تم کبھی کسی قلعہ بند دُشمن کا محاصرہ کر لو اور دُشمن یہ چاہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ لے لو تو ایسا ہرگز نہ کرنا بلکہ اپنا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ لے لینا کیونکہ اگر تم اپنا یا اپنے ساتھیوں کا ذمہ توڑ دو گے تو اس کا گناہ بہرحال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ توڑنے سے ہلکا ہو گا اور جب تم کسی قلعہ بند دُشمن کا محاصرہ کر لو اور وہ یہ چاہے کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر اتار لو تو ایسا ہر گز نہ کرنا، اس لئے کہ تمہیں کیا معلوم کہ تو اُن میں اللہ کا حکم پا سکتا ہے یا نہیں ؟۔‘‘ اس باب کے مسائل 1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ذمہ و امان میں واضح فرق ہے۔ 2۔ حدیث میں ہدایت ہے کہ جب دو مختلف صورتیں درپیش ہوں تو ان میں سے جو صورت کم خطرناک ہو اسے اختیار کرلینا چاہیے۔ 3۔ یہ بھی واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جہاد کیا جائے۔ 4۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا مرتکب ہو اس سے قتال کیا جائے۔
Flag Counter