’’ أَ لَا وَقْولُ الزُّوْرِ، وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ ، أَلَا وَقْولُ الزُّوْرِ وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ۔‘‘ [1]
’’خبردار اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ خبردار اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی بات دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ میں نے کہا:’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہ ہوں گے۔‘‘
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے ، کہ جھوٹی گو اہی دینا بہت بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ علامہ قرطبی نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: [شَھَادَۃُ الزُّوْرِ] سے مراد جھوٹی اور باطل گواہی ہے۔ اس کے بہت بڑے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ہونے کی وجہ یہ ہے ، کہ یہ جانوں اور مالوں کی بربادی ، حرام کو حلال ، اورحلال کو حرام کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ شرک کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے کوئی گناہ اپنے ضرر اور بربادی میں اس سے زیادہ نہیں ۔ [2]
مزید برآں ہم دیکھتے ہیں ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ اور جھوٹی گواہی کی سنگینی اور برائی کی طرف سامعین کو متوجہ کرنے کا خصوصی اہتمام فرمایا ۔ یہ اہتمام درج ذیل تین باتوں میں خوب نمایاں ہے:
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں کے متعلق آغاز گفتگو سے پیشتر ٹیک چھوڑ کر سیدھے ہو کر بیٹھنا۔اس بارے میں حافظ ابن حجر نے تحریر کیا ہے: ’’یہ واضح ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم [ان دونوں کے متعلق ] اہتمام فرماتے ہوئے ٹیک چھوڑ کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔‘‘ [3]
۲: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے متعلق گفتگو کی ابتدا [أَلَا] [خبردار]سے فرمائی۔
|