کریں اور ان کے عیوب واضح کریں ، تو قیمت میں اضافے اور چیز میں دائمی نفع کی صورت میں برکت عطا کی جائے گی، اور (مُحِقَتْ) سے مراد یہ ہے کہ برکت کو اُٹھا لیا جائے گا۔ [1]
علامہ عینی نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے : ’’برکت کے مٹائے جانے سے مراد یہ ہے ، کہ تاجر مال میں جس اضافے اور بڑھوتی کا قصد کر رہا تھا ، اس کے برعکس اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کو صدق و بیان کے ساتھ اور برکت کے اُٹھائے جانے کو ان کی ضد، چھپانے اور جھوٹ کے ساتھ مشروط فرما دیا۔[2]
امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان تحریر کیا ہے:
[بَابُ مَا یَمْحَقُ الْکَذِبُ وَالْکِتْمَانُ فِي الْبَیْعِ۔] [3]
[تجارت میں جھوٹ اور [عیب کا]چھپانا،جو [یعنی برکت] ختم کرتے ہیں اس کے متعلق باب]
امام نسائی نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان لکھا ہے:
[مَایَجِبُ عَلَی التُّجَّارِ مِنَ التَّوْقِیَۃِ فِيْ مُبَایَعَتِھِمْ۔] [4]
[تاجروں پر اپنے لین دین میں جو احتیاط واجب ہے۔]
امام ابن حبان نے درج ذیل عنوان قلم بند کیا ہے:
[ذِکْرُ الْأَمْرِ لِلْبَیِّعَینِ أَنْ یَلْزَمَا الصِّدْقَ فِيْ بَیْعِھِمَا ، وَیُبَیِّنَا عَیْبًا عَلِمَاہُ ، لِأَنَّ ذٰلِکَ سَبَبُ الْبَرَکَۃِ فِيْ بَیْعِھِمَا۔] [5]
[لینے دینے والوں کے لیے اپنے لین دین میں سچائی اور معلوم شدہ عیب کے بیان کی پابندی کے حکم کا بیان ، کیونکہ ایساکرنا لین دین میں باعث برکت ہے۔]
|