Maktaba Wahhabi

115 - 372
تربیت کی جائے جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں دین کا غلبہ واقتدار قائم ہوجائے اور وہ ان معاملات میں دین کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کردیں۔تواس صورت حال میں کہاجاسکتاہے کہ تعدد ازواج سے قوم وملت کونقصان نہیں پہنچ سکتا بلکہ یہ ایک دینی اورقومی ضرورت ہوگی جوزیادہ تر عورتوں ہی پرمنحصر ہے(آگے چل کرفرماتے ہیں)کہ جب بیویوں کے درمیان عدل نہ کیے جاسکنے اورمعاشی اورازدواجی حقوق پورے نہ کیے جاسکنے کا اندیشہ ہو توایسی صورت حال میں تعدد ازواج حرام ہے۔۵۱؎ ٭ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی رائے: جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے ’ترجمان القرآن‘ بابت محرم‘ ۱۳۵۶ھ‘ میں اپنے مضمون ’’نکاح کتابیہ‘‘کے ضمن میں لکھاہے: ’’ شریعت کی تمام رخصتوں کے معاملے میں جن سے ناجائز فائدہ اٹھائے جانے کا اندیشہ پایاجاتا ہو مسلمانوں کے اولی الامر کوامتناعی احکام جاری کرنے کا حق ہے اوراس قسم کے امتناعی احکام جائز کوناجائز اورحلال کوحرام کیے بغیر نافذکیے جاسکتے ہیں۔‘‘ مسلم ممالک کے قوانین کی روشنی میں تعدد ازواج کی ممانعت آج کل شام،عراق اورمراکش کے قانون کے تحت ایک سے زائد نکاحوں پر پابندی عائد ہے۔اورایک بیوی کی موجودگی میں دوسری عورت سے نکاح،صرف قاضی کی اجازت پر موقوف ہے۔لیکن عراق میں اجازت دوشرطوں کی تکمیل پر دی جاتی ہے ایک یہ کہ شوہر اتنی مالی استطاعت رکھتاہو۔اوردوسری یہ کہ اس نکاح میں شرعی مصلحت پائی جائے۔۵۲؎
Flag Counter