Maktaba Wahhabi

59 - 372
نکاح کا اسلامی طریقہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اورعورتوں کے لیے نکاح کومشروع کیاہے اوراس کا اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے طور پر بیان کیاہے۔اوراسے نفس کے لیے قلعہ بند،نسل کی بقاء،امت کے لیے قوت قرار دیاہے۔اورزوجین کے لیے اسے سکون وراحت،محبت ومودت کا باعث ٹھہرایا ہے اوراسے زوجین کی زندگی میں بڑا اہم اوراثر ورسوخ رکھنے والا عقد قرار دیا ہے۔توکیوں نہ اس کے طریقے سے بھی شناسائی حاصل کرلی جائے۔اب ہم طریقہ نکاح سے قبل چند باتوں کاذکر ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ دین اسلام ان چیزوں کے بغیر نکاح کونکاح نہیں کہتا جن کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔ ولی کی اجازت یاد رہے کہ لڑکے کے نکاح کے لیے ولی یاسرپرست کی شرط نہیں جبکہ لڑکی کے لیے اس کے ولی کی اجازت ضروری ہے اورولی کی اجازت کے بغیر کیا جانے وا باطل ہے جیساکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’لانکاح إلابولی مرشد أوسلطان‘‘۶۳؎ ’’ولی مرشدیا سلطان کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کیا اس کا نکاح باطل باطل ہے۔‘‘۶۴؎ واضح رہے کہ ولی کی موجودگی ضروری نہیں بلکہ اس کی اجازت اوررضامندی ہی کافی ہے خواہ یہ بذات خود موجودگی یا شمولیت کی صورت میں ہو یا اپنے وصی،وکیل یاکسی تحریر کی شکل میں ہو۔ لڑکی کی رضامندی ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ دلہن کی رضامندی بھی ضروری ہے اگر ولی کی اجازت اور رضامندی کے باوجود لڑکی کی رضامندی شامل نہ ہو تو اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا اگر بالفرض جبر و اکراہ کے ساتھ اس کانکاح کر بھی دیا جائے تولڑکی عدالت کے ذریعے فسخ نکا ح کا حق رکھتی ہے۔ گواہوں کی موجودگی نکاح کے موقع پر دلہاکے علاوہ دونیک،عادل مسلمان گواہوں کی موجودگی ضروری ہے جیساکہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے۔ 1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ عورتیں بدکار ہیں حواپنا نکاح بغیر دلیل(گواہ) کے کرتی ہیں۔‘‘۶۵؎ 2۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لانکاح الا بولی وشاہدی عدلٍ‘‘۶۶؎ نکاح تب منعقد ہوتاہے جب ولی اورعادل گواہ موجود ہوں۔
Flag Counter