Maktaba Wahhabi

161 - 372
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورتوں کا اجنبی مَردوں کے ساتھ مخلوط محفلوں میں شرکت نہ کرنا اُن کی عزت اور وقار کو بڑھاتا ہے اور ایسی عورت قابل تعریف ہوتی ہے‘ کیونکہ کتنے ہی مفاسد اور نقصانات ایسے ہیں جو کہ عورتوں کے مَردوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اہل مغرب اس بات پر حیران ہیں اور انہیں یہ نہیں معلوم ہو رہا کہ کس طرح سے اپنے شہروں اور قوموں سے مَرد و زن کی مخلوط مجالس کے فتنے کو روکیں‘ اگرچہ انہیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اِن مخلوط محفلوں کا انجام عورت کی ذلت و رسوائی ‘اخلاقِ رذیلہ کا پھیل جانا اور اخلاقیات و آداب کی موت ہے۔چنانچہ مشہور رائٹر لیڈی کوک رسالہ ’’ایلو‘‘ میں لکھتی ہیں: ’’جس قدر مخلوط محفلوں کا رواج ہو گا،حرامی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔عورت کے لیے اس سے بڑی آزمائش کیا ہو سکتی ہے کہ جو آدمی اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے بچے کی پیدائش پر اُس کو اُس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ بے چاری فقر و فاقہ اور تکالیف برداشت کرتی ہے،ذلت و حقارت اور ظلم و ستم کے مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر موت کے دروازے تک جا پہنچتی ہے۔جہاں تک فقر و فاقہ کا تعلق ہے تو چونکہ وہ حاملہ ہوتی ہے لہٰذا بچے کا بوجھ‘ سردرد اور گرمی وغیرہ اس کے کمانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔اور جہاں تک مشقت و تکلیف کا معاملہ ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ وہ عورت معاشرے کی نگاہوں میں رذیل بن جاتی ہے اور اس تردّد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اپنی ذات کے ساتھ کیا کرے۔جہاں تک ذلت و رسوائی کی بات ہے تو اس سے زیادہ ذلت و رسوائی اور کیا ہو گی؟ لیکن جہاں تک موت کا تعلق ہے تو ایسی عورت خود کشی کے مشکل ترین راستے اختیار کرتی ہے۔یہ اُس عورت کا حال ہے اور مَرد اِن تمام چیزوں سے لاتعلق رہتا ہے۔اب ہمیں ان باتوں کی تحقیق کرنی چاہیے اور ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جو اِن مصائب کو بالکل ختم نہ سہی کم از کم کر دے جن کی وجہ سے آج مغربی معاشرہ ذلت و رسوائی کی طرف جا رہا ہے۔آج ہم ایسے راستے اختیار کریں جن کے ذریعے ہم ان ہزاروں معصوم بچوں کو قتل ہونے سے بچا سکیں جن کا کوئی گناہ نہیں ہے‘‘۔ اے والدین!تم کو وہ چند روپے جو کہ تمہاری بیٹیاں کارخانوں اور مختلف اداروں میں کام کر کے کماکر لاتی ہیں کہیں تمہیں اس انجام کی طرف نہ لے جائیں جس کا میں نے ذکر کیا ہے!انہیں مَردوں سے دُور رہنے کی تعلیم دو‘ انہیں اُن پوشیدہ جالوں کے بارے میں باخبر رکھو جن کو اُن کے لیے بچھایا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کی رپورٹیں یہ بات واضح طور پر بیان کر رہی ہیں کہ جس قدر مخلوط محافل کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اسی تیزی سے آزمائش و مصائب میں اضافہ ہو رہا ہے۔آج ہمارامعاملہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔افسوس اس بدنصیبی اوربدبختی پر!! ٭ مشہور رائٹر’ مس آنی رود‘ لکھتی ہیں: ’’ہماری بیٹیاں اپنے گھر میں نوکروں کی طرح کام کریں ‘یہ ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے اس سے کہ وہ باہر جا کر کارخانوں وغیرہ میں کام کریں،کیونکہ جب عورت باہر نکلتی ہے تو وہ آلودہ ہو جاتی ہے اور اس کی زندگی کی رونق ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتی ہے۔کاش کہ ہمارے شہر بھی اسلام کے شہروں جیسے ہوتے جہاں شرم و حیا ہے‘ پاکیزگی ہے‘ عزت ہے…‘‘ پچھلی بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ عورت کا اپنے گھر میں ٹھہرنا،اسے بہت بڑی آزمائشوں اور آفات سے بچالیتا ہے اور شریعتِ اسلامیہ
Flag Counter