Maktaba Wahhabi

173 - 372
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگہبان(ذمہ دار) سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھنے والا ہے کہ کیا اس نے اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا کی یا اسے ضائع کر دیا؟ یہاں تک کہ آدمی سے اس کے گھر والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((کَفٰی بِالْمَرْئِ اِثْمًا اَنْ یُضَیِّعَ مَنْ یَّقُوْتُ)) ۲۲؎ ’’کسی آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ جس کا ذمہ دار ہے اس کو ضائع کر دے۔‘‘ اور شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی پر خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لے اور نہ ہی اسراف کرے،بلکہ میانہ روی اختیار کرے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ﴾۲۳؎ ’’اور کھاؤ پیو،لیکن فضول خرچی سے کام نہ لو،بے شک اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے بارے میں وصیت کی ہے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی ترغیب دی ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾۲۴؎ ’’اور اُن کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو۔‘‘ پس شوہر کیلئے لازم ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارے اور نان و نفقہ دینے میں اسکے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرے۔سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے‘جسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ((أ لا وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا‘ فَاِنَّمَا ھُنَّ عَوَانٌ عِنْدَکُمْ)) ۲۵؎ ’’خبردار!عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو‘ بے شک وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ((ألا وَحَقُّھُنَّ عَلَیْکُمْ اَنْ تُحْسِنُوْا إِلَ۔یْھِنَّ فِیْ کِسْوَتِھِنَّ وَطَعَامِھِنَّ)) ۲۶؎ ’’سنو!تمہاری عورتوں کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان کے ساتھ کھانے اور پہننے کے ضمن میں احسان کا معاملہ کرو۔‘‘ اسی طرح حضرت حکیم بن معاویہ القُشیری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَنْ تُطْعِمَھَا اِذَا طَعِمْتَ وَتَ۔کْسُوْھَا اِذَا اکْتَسَیْتَ اَوِ اکْتَسَبْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ)) ۲۷؎ ’’یہ کہ تُو اس کو کھلائے جو تو خود کھائے اور اس کو پہنائے جو تو خود پہنے ‘اور اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اسے برا بھلا کہہ۔‘‘ اگرمردعورت پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لے تو عورت اپنی اور اولاد کی ضرورت کے مطابق اس کے مال سے بغیر اجازت لے سکتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ابوسفیان کی بیوی ہندہ کے لیے تھا کہ: ((خُذِیْ مَا یَکْفِیْکِ وَوَلَدَکِ بِالْمَعْرُوْفِ)) ۲۸؎ ’’تو معروف طریقے سے اتنا مال اپنے خاوند کے مال سے لے لے جو تجھے اور تیرے بچوں کو کفایت کر جائے۔‘‘
Flag Counter