Maktaba Wahhabi

240 - 372
’’ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمیں میں پھر فساد برپا کروگے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا تو حال یہ ہے کہ اگران کو دنیا میں حکومت دی جائے تو یہ قطع رحمی کریں گے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ منقول ہے،جسے حدیث کی کتاب مستدرک حاکم میں روایت کیا گیا ہے: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے ایسی لونڈی جوکہ کسی بچہ کی ماں ہو(اُم الولد) کو بیچنا حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے اتفاق فرمایا تھا۔چونکہ اس کو بیچنے میں ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی واقع ہوتی تھی۔چنانچہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مستدرک میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ میں ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا کہ یکایک محلہ میں شور مچ گیا،دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جارہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت انصار او ر مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمد1 لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے جواب دیا نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جارہا ہے۔ا س سے بڑی قطع رحمی او رکیا ہوسکتی ہے ؟ پھر آپ نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی۔لوگوں نے کہا کہ آپ اس کو روکنے کے لئے جو صورت مناسب سمجھیں،اسے اختیار کریں۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام بلاد اسلامیہ کے لئے یہ فرمان جاری کردیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس کے مالک سے اس لونڈی کی اولاد ہو کیونکہ یہ قطع رحمی ہے او ریہ جائز نہیں ہے۔‘‘۴؎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عدالت،قطع رحمی کوبذریعہ حکم روک سکتی ہے،اس لئے اگر عورت باپ کے اذن کے بغیر گھر سے جاتی ہے یا والدین کی اطاعت نہیں کرتی تو یہ قطع رحمی میں شامل ہے اور عدالت بذریعہ حکم اس کوباپ کے گھر رہنے پرمجبور کرسکتی ہے۔ والدین کے ساتھ احسان،سلوک اور صلہ رحمی کی اس قدر اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد اس کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَقَضٰی رَبُّکَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ کِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا أُفٍ وَّلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃ وَقُلْ رَّبِ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾۵؎ ’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو،مگر صرف اسی کی۔والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو،اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو،نہ انہیں جھڑک کر جواب دو،بلکہ انکے ساتھ احترام سے بات کرو۔‘‘ احادیث سے دلائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ان الرحم شجنۃ من الرحمن فقال اللّٰہ:من وصلک وصلتہ ومن قطعک قطعتہ‘‘ ۶؎ ’’لفظ ’رحم‘ رحمن سے ماخوذ ہے،پس اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا:جس نے تجھے جوڑا،میں اسے جوڑوں گا اور جس نے تجھے توڑا،میں اسے توڑوں گا۔‘‘ صحیح بخاری میں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان جبیر بن مطعم کی روایت سے یوں موجود ہے:
Flag Counter