Maktaba Wahhabi

315 - 372
’’اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے والے کا اثر بہت دیر تک قائم رکھتاہے اور وہ جلدی ختم اور خلل انداز نہیں ہوتا اور قطع رحمی کرنے والے کا اثربہت جلد ختم ہوجاتاہے۔‘‘ صلہ رحمی کے فوائد موسوعہ نضرۃ النعیم میں صلہ رحمی کے مندرجہ ذیل فوائد نقل کئے گئے ہیں: 1۔ صلہ رحمی حسن اسلام اور کمال ایمان کی علامت اور اطہار ہے۔ 2۔ صلہ رحمی سے عمروں میں اور رزق میں برکات کا نزول ہوتاہے۔ 3۔ صلہ رحمی ایک ایسا احسن اور صالح عمل ہے جس سے رب کائنات بھی راضی ہوجاتا ہے اور مخلوق خدا بھی رضا و خوشنودی کے مقام کو پالیتی ہے۔ 4۔ صلہ رحمی جیسے افضل عمل سے ننھیال و ددھیال اور دیگر عزیز و اقارب سے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور ان کے درمیان محبت و الفت کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ 5۔ صلہ رحمی سے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ساتھ ساتھ خلق خدا اورعزیز و اقارب کی طرف سے تائید و تقویت اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ 6۔ صلہ رحمی رشتہ داروں کا حق ہے اگرچہ وہ کافر،فاجر اور بدعتی اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں۔ 7۔ صلہ رحمی کا نظام جہاں قائم ہو اس سرزمین پر رحمت خداوندی کانزول ہوتا ہے۔۵۸؎ صلہ رحمی کس طرح ہوسکتی ہے؟ صلہ رحمی کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔گاہے بگاہے رشتہ داروں سے ملاقات کی جائے۔اگر فاصلہ زیادہ اور وقت کامسئلہ ہو تو اس کے لیے مواقع خاص کئے جاسکتے ہیں مثلاً ہر سال عید کسی ایک جگہ یا مرکزی گھر میں اکٹھے منائی جائے۔ان کے گھروں میں آیا جایا جائے۔ان سے حال احوال پوچھتے رہیں۔اب تو ٹیلی فون کی سہولت ہر جگہ میسر ہے،اس کے ذریعے رابطے میں رہا جائے۔خاندان کے بڑوں کی عزت وتوقیر کی جائے۔چھوٹی موٹی باتوں کو خواہ مخواہ ایشو یا اپنی اَنا کامسئلہ نہ بنا لیا جائے۔چھوٹوں پر شفقت کی جائے۔خاندان کے غریب افراد پر صدقہ کیا جائے۔روپے پیسے کے علاوہ پُرخلوص مشورے اور بہتر معاملات کی طرف رہنمائی کے ذریعے بھی ان کی معاونت ہوسکتی ہے۔اُمرا کے ساتھ نرمی اور احترام کا معاملہ کیا جائے۔اگر کوئی رشتہ دار گھر میں ملنے کے لیے آجائے تو اس کا اچھی طرح استقبال کیا جائے۔جس حد تک ممکن ہو،ان کی خدمت کرکے خوشی محسوس کی جائے۔خوشی اور غمی کے مواقع پر ان کے ساتھ شامل ہوا جائے،اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی خوشی غمی کی محفلوں کو فرسودہ روایات سے پاک کردیں۔تصنع اور نمود و نمائش کی بجائے سادگی سے کام لیا جائے تاکہ ایک دوسرے کے پروگراموں میں شمولیت اختیارکرتے ہوئے کوئی بوجھ محسوس نہ ہو۔اگر ہمارے شادی کے پروگرام ہفتہ بھر جاری رہیں اور فوتگی کے موقع پر لمبے چوڑے رسوم و رواج چلتے رہیں تو لوگوں کے لیے ان میں شمولیت مشکل ہوجاتی ہے۔ باہمی محبت میں تحائف بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔حدیث نبویؐ ہے:0تحادّوا تحابّوا9 ’’ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو،اس سے محبت پھیلتی ہے۔‘‘ تحفہ خواہ کیسا ہی ہو،خوش دلی سے قبول کرنا چاہئے۔تحفے کے بارے میں بھی نمودونمائش اور اِسراف سے بچنا چاہئے تاکہ محبت بڑھانے کا یہ ذریعہ بوجھ نہ بن جائے۔بیماروں کی عیادت کی جائے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر وقت رشتہ داروں کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔بھلائی کا حکم دیا جائے اور بُرائی سے روکا جائے۔خاندان میں رائج غیر شرعی کاموں کی اصلاح کی جائے۔ایک سنجیدہ اور باوقار انسان اگر خاندان کے معاملات میں دلچسپی لے تو اسے تبلیغ دین کے لیے بہترین پلیٹ فارم مل سکتا ہے۔
Flag Counter