Maktaba Wahhabi

328 - 372
﴿یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوٓئٍ مَابُشِّرَبِہٖ اَیُمْسِکُہْ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ اَلَاسَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾۱۷؎ ’’ان کو(لڑکی کو) اپنے لیے باعث عار اور تنگ سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا اور اس تردد میں پڑ جاتا ہے کہ اس کو ذلت گوارا کرکے باقی رکھے یا اس کو زمین میں دفن کرکے اس ذلت و رسوائی سے چھٹکارا حاصل کرلے۔‘‘ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے: ایک عرب عورت اپنے خاوند کی بے رحمی کو اس طرح بیان کرتی ہے۔ ’’ما لأبی حمزۃ لا یا تینا یظل فی السبت الذی یلنیا غضبان الا نلد البنینا وانما ناخذ ما اعطینا‘‘۱۸؎ ’’میرے خاوند(ابو حمزہ) کو کیا ہوگیا ہے کہ اب وہ ہمارے پاس آتا نہیں۔وہ ساتھ والے مکان میں رہتا ہے اور اس لیے غضبناک ہے کہ ہم بیٹے کیوں نہیں جنتیں۔اس میں ہمارا کیا قصور ہے ہم کو جوکچھ ملتا ہے ہم وہی جنتی ہیں۔‘‘ ٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’سب سے پہلا شخص جس نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کیا وہ قیس بن عاصم تمیمی تھا۔‘‘ ’’وکان بعض اعدائہ أغاز علیہ فاسر بنتہ فاتخذھا لنفسہ ثم حصل بینھم صلح فخیر البنۃ فاحتارت زوجھا۔فآلی قیس علی نفسہ ان لا تولہ لہ بنت الادفنھا حیۃ فتبعہ العرب فی ذلک‘‘۱۹؎ ’’اس کے دشمنوں میں سے کسی نے اس پر حملہ کیا اور اس کی بیٹی کو قیدی بنانے کے بعد اپنی بیوی بنالیا،کچھ عرصہ کے بعد ان کے درمیان صلح ہوگئی۔اس نے اپنی بیٹی کی واپسی کا جب تقاضا کیا تو دشمن نے اس کی بیٹی کو اختیار دے دیا۔چاہے تو اس کے پاس رہے چاہے تو اپنے باپ کے پاس چلی جائے۔بیٹی نے خاوند کے پاس رہنے کو ترجیح دی۔قیس نے قسم کھائی کہ جب بھی اس کے ہاں بیٹی ہوگی وہ اسے زندہ دفن کردے گا۔پس اس نے ایسا ہی کیا اور اہل عرب نے اس کی پیروی کی۔‘‘ حضرت قیس بن عاصم تمیمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرتے ہیں: ’’ میں نے بارہ یا تیرہ بچوں کو زندہ درگور کیا ہے۔‘‘۲۰؎ مظہرالدین صدیقی "Woman in Islam" میں لکھتے ہیں: "Prior to Islam daughters were looked upon with disfavour and as a kind of economic and social burden. The result was that the male members of the family, enjoyed a respect which was denied to those of fair sex. There were marked defferences in the treatment and up buringing of soms and daughters:۲۱؎ ’’اسلام سے قبل عورت سے ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا اور اسے معاشی اور معاشرتی بوجھ تصور کیاجاتا تھا۔اس کے نتیجے میں عورت سے نفرت اور مرد سے محبت کی جاتی تھی۔چنانچہ لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش اور سلوک کے معاملے میں دونوں کے درمیان ایک امتیازی فرق تھا۔‘‘
Flag Counter