Maktaba Wahhabi

330 - 372
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرً ا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا مِنْ اِخْوَانِ الشَیٰطِیْنَ﴾۲۳؎ ’’اور فضول خرچی نہ کرو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘ مائیوں بٹھانے کی روایت مائیوں بٹھانے کی رسم برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہے۔جس کاطریقہ یہ ہے۔لڑکی کو شادی سے چند دن قبل ایک چوکی پربٹھا دیا جاتاہے اور اسے گھر کے کام کاج حتیٰ کہ گھر والوں سے بول چال تک سے منع کر دیا جاتاہے۔تاوقتیکہ اس کی شادی ہوجائے۔جہاں تک لڑکی کو شادی سے پہلے کام کاج چھڑا کر آرام کرنے کا موقع فراہم کرنے کی بات ہے۔اسے شرعی طور پرمکروہ خیال نہیں کیاجاتا بلکہ اس میں کئی ایک خوبیاں پوشیدہ ہیں مثلاً لڑکی گھر کے کام و کاج چھوڑ کر اپنے جسم کی صفائی اور خوبصورتی پر توجہ دیتی ہے تاکہ خاوند کی نگاہ اولین میں اس کا اچھا تاثر قائم ہو لیکن افرادخانہ سے بات چیت کو کسی خاص نظریے اور تصور توہمانہ کی بنا پر ترک کردینا سراسر غیرشرعی امر ہے۔ سہرہ بندی کی روایت شادی کے روز دُلہا کو اس کے اپنے گھر میں بارات چلنے سے کافی دیر پہلے شاہانہ لباس زیب تن کرکے اور سر پر سہرا سجا کر کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے اوردُلہا کی کرسی کے ارد گرد دوچار کرسیاں ہوتی ہیں اور سامنے میز کو رکھ کر اس پر خوبصورت گلدستے سجا دیئے جاتے ہیں اور دُلہا کے عزیز و اقارب باری باری آتے ہیں اور دُلہا پر قیمتی تحائف اور روپوؤں کی بارش برساتے ہیں۔جسے’’سہرا بندی‘‘ کہاجاتاہے۔یہ رسم ایران کے آتش پرستوں نے ایجادکی۔آتش پرست اسے پنجہ آفتاب کہتے ہیں کیونکہ جب دُلہا سہرا باندھتا تو اس کا چہرہ آفتاب کاپنجہ یعنی سورج کی آگ(روشنی) کے مشابہہ ہوجاتا۔یہ روایت بڑھتے ہوئے جب بادشاہوں تک پہنچی تو وہ اپنی شادیوں پرسونے کے تاج اور سونے کی تاروں اور قیمتی نگینوں سے مرصع سہرے تیار کرنے لگے پھر انقلاب زمانہ و حالات سہرے میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور عصر حاضر میں ایسی ٹوپیاں تیار کی جاتی ہیں جو بیک وقت سہرا اورٹوپی پگڑی(کلاہ) کا کام دیتا ہے۔یہ ایک روایت ہے جو شرک کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ دُلہا پر ہاروں کی بارش دور جدید میں دلہا کسی ریاست کے صدر اور وزیراعظم سے کم حیثیت کا حامل نہیں ہوتا اس لیے کہ لوگ چاروں طرف سے مبارکباد پیش کررہے ہوتے ہیں اور کوئی مالا ہار اور کوئی اصلی نوٹوں سے پُروے گئے ہارڈال رہا ہوتا ہے اور ولہے کی خوشی کو دوبالا کررہے ہوتے ہیں۔ایک طرف تو دلہا کو مبارکباد پیش کی جارہی ہوتی ہے اور دوسری طرف اسے لاکھوں کا مقروض کیاجارہا ہوتا ہے۔اگر ان سے اس کے مقصد کا سوال کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ دلہے اور دوسرے لوگوں میں کچھ نہ کچھ فرق تو ہوناچاہئے حالانکہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں دیکھا جائے یہ فضولیات سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
Flag Counter