Maktaba Wahhabi

85 - 372
نزاکت کے پیش نظر دونوں کی رضا مندی انتہائی ضروری ہے اور کسی کی ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں۔‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’ حقیقت یہ ہے کہ حدیث((لا نکاح إلا بولي))حسن(معتبر)ہے اور کئی محدثین نے اس کو صحیح بھی کہا ہے۔اس مسئلہ میں تحقیق پر مبنی رائے یہ ہے جو بحث و تمحیص کے بعد ثابت شدہ ہے کہ شریعت میں ہر وہ کام جو جماعت سے تعلق رکھتا ہو اس میں طرفین کا خیال رکھنا ضروری ہے۔جبکہ احادیث دونوں طرف وارد ہیں۔لہٰذا نظام کو قائم رکھنے کا بہتر اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ طرفین کی احادیث کو جمع کرکے دونوں کے مقصود پر عمل کیا جائے۔ایسی صورتوں میں سے ایک نکاح بھی ہے۔اس میں دونوں طرح کی احادیث وارد ہیں جب عورتوں کو مخاطب کیا تو انہیں بتایا کہ ان پر ان کے اولیاء کا حق ہے۔حتیٰ کہ یہ خطرہ ہوگیا کہ عورتوں کا کوئی حق باقی نہیں رہا،جیسا کہ اس حدیث میں ہے:((أیما إمرأۃ نکحت بغیر إذن ولیہا فنکاحہا باطل فنکاحہا باطل فنکاحہا باطل)) ’’اس تکرار کا مقصد ولی کی اجازت کی ضروری تاکید اور مبالغہ ہے اور جب اولیاء کی طرف توجہ فرمائی تو انہیں فرمایا کہ((الأیم أحق بنفسہا من ولیہا))گویا کہ ولی کا کوئی جبر نہیں۔تو ان دونوں طرح کی حدیثوں میں ہر ایک میں ایک حصہ بیان ہوا اور اصل مقصد دونوں پر اکٹھا عمل کرنا ہے۔جبکہ شافعیہ نے((لا نکاح إلا بولي))کی حدیث لے لی اور((الأیم أحق بنفسہا من ولیہا))والی حدیث کی تاویل کرنے لگے۔اس طرح احناف نے((الأیم أحق بنفسہا من ولیہا)) والی حدیث لے لی اور ’لا نکاح إلا بولي‘ والی حدیث کو مخالف سمجھ کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔جبکہ دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ ولی عورت کی رضا مندی کو پیش نظر رکھے اور عورت ولی کی اجازت اور نکاح میں ولی کی شراکت کا اہتمام کرے۔نہ عورتیں مردوں کی حدود سے آگے جائیں اور نہ مرد عورتوں پر زیادتی کریں۔ کیا ولی کی اجازت بطور مصلحت پیش نظر ہے یا عورت کے حق کا خیال رکھا گیا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ولی کا حق اور اسی کی مصلحت کے پیش نظر ہے۔جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ عورت کی مصلحت کے لئے ہے کیونکہ عورت ناقص معلومات والی اور کمزور سوچ والی واقع ہوئی ہے اکثر اپنی مصلحت نہیں سمجھتی اور نہ ہی حسب کی حفاظت کرسکتی ہے۔غیر کفو(مرتبہ میں کمتر)کی طرف راغب ہوجاتی ہے جس سے اس کے ولی کو عار لاحق ہوتی ہے لہٰذا ولی کو شرط قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ دروازہ بند ہوجائے۔‘‘ ۶۹؎ خلاصہ کلام لڑکی کے نکاح میں ولی کی رضامندی کے بارے میں چار ائمہ میں سے تین کا موقف تو بالکل واضح ہے۔جو ان کی ذاتی کتب سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ سب نکاح میں ولی کی رضامندی کو لازمی قرار دیتے ہیں۔جہاں تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مؤقف کا تعلق ہے تو ان کی ذاتی کتاب میں بھی ان کا موقف وہی ہے جو باقی تینوں ائمہ کا ہے اسی طرح ان کے شاگردوں نے بھی ان کا موقف تقریباً یہی بیان کیا ہے۔کہ وہ نکاح میں ولی کی رضامندی کو لازمی تصور کرتے تھے۔ جہاں تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب اس موقف کا تعلق ہے۔کہ وہ نکاح میں ولی کی رضامندی لازمی نہیں سمجھتے تو یہ وہ موقف ہے جو نہ ہی انہوں نے خود،نہ ان کے شاگردوں نے ان کی طرف منسوب کیا ہے۔امام صاحب کی وفات کے صدیوں بعد حنفی علماء نے یہ موقف ان سے مشہور کردیا تھا۔جس کی بعض حنفی علماء نے تردید کی ہے۔غرض امام صاحب کا در حقیقت موقف وہ نہیں جو ان سے
Flag Counter