Maktaba Wahhabi

199 - 202
آپس میں خریدوفروخت مطلق درست ہوگی بشرط یہ کہ دونوں طرف سے نقد ونقد ہو۔‘‘[1] اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ جب معاملہ نقد ونقد ہوگا تو لامحالہ بازار کے نرخ پر ہی ہوگا، مثلاً ایک شخص روپے دے کر ڈالر لینا چاہتا ہے تو ظاہر ہے وہ ڈالر کے بدلے اتنے روپے ہی دے گا جتنے اسے بازار کے لحاظ سےدینے چاہیے لیکن ادھار کی صورت میں کمی بیشی سے اس کے اندر سودی آلائش شامل ہوجائےگی۔وہ اس طرح کہ جو شخص آج پچاسی روپے دے کے یہ طے کرتا ہے کہ وہ ایک مہینہ بعد ایک ڈالر لے گا تو اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایک مہینہ بعد ڈالر اور روپے کے درمیان یہی نسبت ہوگی۔لہذا اس نے روپے اور ڈالر کے درمیان جو پیشگی ایک نسبت متعین کرلی ہے یہ سودی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے اس لیے یہ ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں ادھار میں یہ قباحت بھی مضمر ہے کہ اس سے سودی عناصر کو اپنا مذموم دھندہ جاری رکھنے کے لیے سازگار ماحول میسر آسکتا ہے۔وہ یوں مثلاً کسی شخص کو اسی روپے دیگر سود وصول کرنا سود ہے اب ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اسی دیکر چھ ماہ بعد سود وصول کرے تو وہ یہ حیلہ کرسکتا ہے کہ ضرورت مند کو اسی روپے دینے کی بجائے چھ مہینے کے لیے ایک ڈالر سوروپے میں بیچ دےیوں ادھار کی اجازت کو سود حاصل کرنے کاذریعہ بنالے۔لہذا دو مختلف کرنسیوں کے مقابلے میں کسی جانب سے ادھا ر کی اجازت نہیں ہے۔چونکہ دونوں جانب سے نقد ہونے کی صورت میں یہ خطرہ نہیں ہے اس لیے نقد ایک ڈالر جتنے کا چاہیں بیچیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جسٹس علامہ عمر بن عبدالعزیز المترک رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’نام، صفات اور جاری کنندہ کے اعتبار سے ان کی مختلف اجناس ہیں۔سعودی ریال ایک جنس ہے، مصری پونڈ الگ جنس ہے، عراقی دینار مختلف جنس ہے،شامی لیرا، لبنانی لیرا، امریکی ڈالر اور آسٹریلوی ڈالر الگ الگ اجناس ہیں۔جیسے گندم اور جو اگرچہ دونوں دانوں کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں مگر ایک دوسرے سے علیحدہ جنس شمار ہوتے
Flag Counter