Maktaba Wahhabi

75 - 154
کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ’’تمہارے شوہر کہاں ہیں؟‘‘ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر تحریر کرتے ہیں: ’’وَکَأَنَّہٗ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَہِمَ مَا وَقَعَ بَیْنَھُمَا، فَأَرَادَ اسْتِعْطَافَہَا عَلَیْہِ بِذِکْرِ الْقَرَابَۃِ الْقَرِیْبَۃِ بَیْنَھُمَا۔‘‘‘([1]) [’’اور شاید کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں کے درمیان کچھ کھٹ پٹ کا احساس ہوگیا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کے دل میں ان کے لیے محبت کے جذبات ابھارنے کی خاطر قریبی رشتہ داری کا ذکر فرمایا۔‘‘] ۳: اس صورتِ حال سے آگاہی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار نہ کی، بلکہ فوراً ہی معاملہ کی اصلاح کی خاطر کوشاں ہوئے، ایک شخص کو دامادِ محترم رضی اللہ عنہ کی تلاش میں ارسال فرمایا۔ ۴: ان کی جگہ معلوم ہونے پر انہیں اپنے پاس نہیں بلایا، بلکہ خود ان کے پاس تشریف لے گئے۔ ۵: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نہ باز پرس فرمائی، اور نہ ہی کسی قسم کی خفگی کا اظہارکیا۔ ۶: اپنے دستِ مبارک سے دامادِ محترم کے جسم پر لگی ہوئی مٹی کی جھاڑ پونچھ فرمائی۔ ۷: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے داماد کو خوش کرنے کی خاطر ازراہِ مزاح [ابا تراب([2])] کے لقب سے پکارا اور یہ لقب انہیں اس قدر پسند آیا، کہ بقول سہل بن سعد رضی اللہ عنہ :
Flag Counter