وہ)[سنّت] ہے۔تیسرا(قول):وہ[فرضِ عین] ہے۔یہ ہمارے اصحاب میں سے ابن منذر اور ابن خزیمہ کا قول ہے۔کہا گیا ہے:بلاشبہ وہ(امام)شافعی کا(بھی)قول ہے۔۔رحمہم اللہ۔۔
امام نووی نے جماعت کو[سنّت] کہنے والے علماء کے قول کا مقصود بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ أَمَّا إِذَا قُلْنَا:’’إِنَّہَا سُنَّۃٌ‘‘،فَہِيَ سُنَّۃٌ مُؤَکَّدَۃٌ۔قَالَ أَصْحَابُنَا:’’یُکْرَہُ تَرْکُہَا۔‘‘ صَرَّحَ بِہِ الشَّیْخُ أَبُوْ حَامِدٍ وَابْنُ صَبَّاغٍ وَآخَرُوْنَ ‘‘۔[1]
’’جب ہم اسے[سنّت] کہتے ہیں،تو اس سے مراد اس کا[سنّت مؤکَّدہ] ہونا ہے۔ہمارے اصحاب نے کہا:’’اس کا چھوڑنا مکروہ ہے۔‘‘ شیخ ابوحامد،ابن صباغ اور دیگر(علماء)نے یہ واضح طور پر بیان کیا ہے۔‘‘
ہ:علامہ ابن قاسم غزی [2] کا قول:
’’ فَجُمْلَۃُ الْأَقْوَالِ أَرْبَعَۃٌ:اَلرَّاجِحُ مِنْہَا أَنَّہَا فَرْضُ کِفَایَۃٍ‘‘۔[3]
’’(اس بارے میں)مجموعی طور پر چار اقوال ہیں۔ان میں سے راجح یہ ہے،کہ بے شک وہ[فرضِ کفایہ] ہے۔‘‘
و:شیخ سلیمان الجمل [4] کا قول:
|