Maktaba Wahhabi

112 - 440
کرلوں۔‘‘ (صحیح البخاری، حدیث: ۷۴۹۴۔ صحیح مسلم: ۷۵۸) اسی لیے مستحب ہے کہ انسان رات کے آخری تہائی حصے میں بیدار ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، تہجد پڑھے اور استغفار کرے تاکہ وہ اس عظیم مقام کا مستحق قرار پائے۔ کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ ((ہَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأَعْطِیَہٗ…)) چنانچہ جب بندہ اس گھڑی میں اپنے رب کے حضور عجز و نیاز کرتا ہے، اس سے بخشش کا طلبگار ہوتا ہے اور اس سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مطالبات کو پورا کردیتا ہے۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس کے ثبوت میں کوئی شک نہیں۔ اس کی سند میں کوئی طعن نہیں اور اس میں اللہ عزوجل کے آسمانِ دنیا پر اترنے کی صفت بیان ہوئی ہے۔ اس لیے یہ ایک عظیم حدیث ہے، ہم اسے اس طرح ثابت مانیں گے جیسے یہ نازل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اترنے کا اثبات کرتے ہیں جیسا کہ اس نے اپنی یہ صفت بیان فرمائی ہے۔ لیکن ہم اس کی کیفیت کے درپے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے، اترتا ہے۔ وہ عرش پر مستوی ہے جیسے چاہتا ہے۔ لہٰذا ہم اترنے کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کریں گے۔ بلکہ نزول (اترنے) کا اثبات کرتے اور اس کی کیفیت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ﴿یَنْزِلُ رَبُّنَا﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اترنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں: ’’ہمارے رب کا حکم اترتا ہے۔‘‘ یہ ایک باطل تاویل ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اترنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے نہ کہ اللہ کے امر کی طرف۔ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تو ہر وقت اترتا ہے رات کے آخری تہائی حصے کے ساتھ خاص نہیں۔ علاوہ ازیں اس تاویل کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں: ((ہَلْ مِنْ سَائِلٍ …فَأَتُوْبَ عَلَیْہِ۔)) کیا اللہ تعالیٰ کا امر یہ صدائیں لگاسکتا ہے۔ کیا امر یہ کہتا ہے ’’ہَلْ مِنْ سَائِلٍ
Flag Counter