Maktaba Wahhabi

147 - 440
ایسے سوالات کرنے والوں کو ان کی حد میں روکنا واجب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے بھی اس آدمی کو اپنے حلقہ سے ادب سکھانے کے لیے اور طلباء علم کو شکوک و شبہات سے بچانے کے لیے باہر نکالا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چاند کے تدریجا بڑھنے اور پھر کم ہونے کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال سے ہٹ کر جواب دیا اور فرمایا: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ط وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَاط وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ،﴾ (البقرہ:۱۸۹) ’’وہ تجھ سے نئے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دے وہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت معلوم کرنے کے ذریعے ہیں۔ اور نیکی ہر گز یہ نہیں کہ گھروں میں ان کی پچھلی طرفوں سے آؤ، بلکہ نیکی اس کی ہے جو بچے (تقویٰ اختیار کرے) اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ ‘‘ یعنی انہوں نے اس کی حقیقت کے بارے میں پوچھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے فوائد بیان کردیے۔ کیونکہ سوال ان کے بارے میں کرنا چاہیے تھا۔جبکہ کسی چیز کی حقیقت اور کیفیت کے بارے میں سوال کرنے میں لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب سے اعراض کیا اور انہیں دوسرا جواب دیا۔ ﴿قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ،﴾ (البقرہ:۱۸۹) ’’کہہ دے وہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت معلوم کرنے کے ذریعے ہیں اور نیکی ہر گز یہ نہیں کہ گھروں میں ان کی پچھلی طرفوں سے آؤ، بلکہ نیکی اس کی
Flag Counter