Maktaba Wahhabi

148 - 440
ہے جو (تقویٰ کے ساتھ) بچے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ ‘‘ علماء کہتے ہیں: اس میں اشارہ ہے کہ صرف انہی چیزوں کے بارے میں سوال کرنا چاہیے جن کی لوگوں کو ضرورت ہو۔ اور یہ ایسے دروازے ہیں جن میں سے طالب علم کو گزرنا چاہیے اور گھروں میں ان کے پیچھے سے داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے شخص کی مثال جو غیر ضروری، تکلف اور شکوک و شبہات پر مبنی سوالات کرتا ہے اس شخص کی طرح ہے جو گھر میں پیچھے سے یا چھت سے تکلیف اٹھاتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ جبکہ وہ شخص جو دروازہ کھول کر اور اجازت لے کر گھر میں داخل ہوتا ہے یہی درست راستے سے اندر آنے والا ہے۔ اسی طرح علم کے بھی دروازے ہیں۔ ایک طالب علم کو چاہیے کہ انہی دروازوں میں سے داخل ہو۔ اور آیت کی تفسیر کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جاہلیت میں لوگ جب قسم کھالیتے تھے کہ وہ احرام کی حالت میں دروازے سے گھر میں داخل نہیں ہوں گے تو وہ دروازے سے داخل ہونا حرام سمجھتے تھے اور گھر کی پچھلی جانب سے داخل ہوتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کام سے منع کردیا اور واضح کردیا کہ احرام کی حالت میں دروازے سے گھر میں داخل ہونا ممنوع نہیں اور نہ ہی یہ احرام کے منافی ہے۔ بلکہ یہ تو محض ایک ایسا تکلف ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ بعض بدعتی لوگ آج کے دور میں بھی احرام کی حالت میں چھت کے نیچے داخل نہیں ہوتے۔ چھت والی گاڑی پر سوار نہیں ہوتے اور گاڑی کی چھت اتار دیتے ہیں۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں اور جمرہ کو کنکریاں مارتے ہوئے اپنے اوپر کپڑوں سے سایہ کرلیتے تھے۔ نمرہ کے مقام پر آپ کے لیے خیمہ لگایا جاتا، آپ اس میں احرام کی حالت میں داخل ہوتے اور خیمے اور کپڑے سے اپنے اوپر سایہ کرنے سے نہیں رکتے تھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانی ہے۔
Flag Counter