Maktaba Wahhabi

157 - 440
پہاڑ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے پھٹ گیا، ثابت نہ رہ سکا اور مٹی بن گیا۔ لہٰذا گوشت پوست کا بنا ہوا ایک انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے کیسے دیکھ سکتا ہے؟ ﴿وَّ خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا﴾ … ’’اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔‘‘ یعنی شدت خوف سے آپ علیہ السلام پر غشی طاری ہوگئی۔ ﴿فَلَمَّآ اَفَاقَ﴾ ’’پھر جب اسے ہوش آیا ۔‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام سے جب غشی اور خوف جاتا رہا۔ ﴿قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ،﴾ (الاعراف:۱۴۳) ’’تو اس نے کہا تو پاک ہے، میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔‘‘ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنے رب سے دیدار کی درخواست کی لیکن اس کی تاب نہ لاسکے۔ لہٰذا آپ کو کوئی ایسا انسان نہیں ملے گا جس نے اللہ تعالیٰ کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی آنکھوں سے آخرت سے پہلے دیکھا ہو۔ ﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ……إِلَّا وَحْیًا﴾ وحیاً سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے الہام کردیتے ہیں۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو اس کام کا الہام کیا تھا جو انہوں نے اپنے بچے کے ساتھ کیا۔ اور جیسا کہ ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض اوقات الہام کے ذریعے وحی آتی تھی۔ یہ فرشتہ کے واسطے کے بغیر ہوتا ہے۔ یہ ایک خیال ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا عطا کرتا ہے۔ ﴿اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ﴾ (الشوریٰ:۵۱) ’’یا پردے کے پیچھے سے۔‘‘ جیسا کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا کہ ان کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے بلاواسطہ کلام
Flag Counter