Maktaba Wahhabi

158 - 440
کیا لیکن پردے کے پیچھے سے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف میں بیان کرتے ہیں: ﴿قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰنِیْ﴾ ’’اس نے کہا: اے میرے رب ! مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ فرمایا: تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔‘‘ تو ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے پردے کے پیچھے سے کلام کرتے ہیں یا فرشتہ کے ذریعہ پیغام پہنچاتے ہیں۔ الغرض! اللہ تعالیٰ یا تو الہام کے طریقے سے کلام کرتے ہیں، یا پردے کے پیچھے سے یا فرشتے کے ذریعے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کے ساتھ دنیا میں پردے کے بغیر کلام کیا اور نہ ہی کسی نے اپنی آنکھوں سے اس کا دیدار کیا۔ البتہ آخرت میں صرف مومنوں کو دیدار نصیب ہوگا۔ اس آیت مبارکہ میں محل شاید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا اثبات کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہتا ہے پردے کے پیچھے سے، یا وحی کے ذریعے یا فرشتے کے ذریعے کلام کرتا ہے۔ ***** کَلَامُ اللّٰہِ بِحَرْفٍ وَصَوْتٍ مَسْمُوْعٍ، وَقَالَ تَعَالَي: ﴿فَلَمَّآ اَتٰہَا نُوْ دِیَ یٰمُوْسٰی، اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ﴾ (۱) (طہ:۱۱۔۱۲) ترجمہ…: اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے اور سنا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’چنانچہ جب وہ اس کے پاس آیا تو اسے آواز دی گئی؛ اے موسیٰ! بے شک میں ہی تیرا رب ہوں۔‘‘ تشریح…: (۱) (ان آیات مبارکہ میں) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جب انہوں نے ایک قبطی آدمی کو قتل کردیا اور فرعونی آپس میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قتل کا
Flag Counter