Maktaba Wahhabi

177 - 440
گیا ایک کمال حکمت والے کی طرف سے جو پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ اس معنی میں پورا قرآن ہی محکم ہے کہ یہ متقن ہے۔ اور پورا قرآن اس معنی میں متشابہ ہے کہ اس کے اجزاء حسن و صدق اور لفظی شیرینی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِہًا﴾ (الزمر:۲۳) ’’اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی۔ ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے۔‘‘ قرآن کا کچھ حصہ محکم ہے اور کچھ حصہ متشابہ۔ اس سے مراد جزوی طور پر محکم اور جزوی طور پر مشابہ ہونا ہے۔ اور محکم سے مراد جیسا کہ ہم پہلے جان چکے ہیں، وہ آیت ہے جو اپنی تفسیر میں اپنے غیر کی محتاج نہ ہو کیونکہ وہ بذات خود ہی واضح ہوتی ہے۔ مشابہ: اس سے مراد وہ مجمل لفظ ہے جو اپنی تفسیر میں اپنے غیر کا محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ﴾ (آل عمران:۱۰۷) ’’وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں۔ وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں۔‘‘ پس ہم جان چکے ہیں کہ مکمل قرآن کو مطلق طور پر محکم بھی کہا جاسکتا ہے اور مطلق طور پر مکمل قرآن کو متشابہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح اس کے کسی حصے پر ’’محکم‘‘ کا اطلاق بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی حصے پر متشابہ کا۔ اسی کو محکم اور متشابہ عام، یا محکم اور متشابہ خاص بھی کہا جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے ہر ایک کا مخصوص معنی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
Flag Counter