Maktaba Wahhabi

197 - 440
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو ان کے پاس علم حاصل کیا اور نہ ہی طلبِ علم کے لیے کسی دوسرے ملک کا سفر کیا۔ بلکہ آپ ان کے ساتھ مکہ میں رہتے تھے۔ وہ آپ کی امانت داری اور حسن اخلاق سے واقف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں ان سے اس قرآن کی کوئی بات نہ کی تھی۔ بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنانا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جوں کا توں لوگوں تک پہنچادیا۔ الغرض ’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمْرًا مِنْ قَبْلِہِ‘‘ کا معنی یہ ہوا کہ میں نے نبوت سے پہلے چالیس سال تمہارے ساتھ ہی گزارے ہیں۔ اگر یہ قرآن میرے پاس پہلے سے تھا تو اسے تمہارے سامنے پیش کرنے میں کیا رکاوٹ تھی کہ میں نے چالیس سال تک تمہارے سامنے اس کا کوئی تذکرہ نہ کیا؟ ***** وَقَالَ تَعَالَی: ﴿بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ، ﴾ (العنکبوت:۴۹) وَقَالَ: ﴿اِِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیمٌ، فِیْ کِتَابٍ مَکْنُوْنٍ، ﴾ (الواقعہ:۷۷،۷۸) بَعْدَ أَنْ أَقْسَمَ عَلَی ذَالِکَ۔(۲) ترجمہ…: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بلکہ یہ تو واضح آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر جو ظالم ہیں۔ ‘‘ اور پھر اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر فرمایا: ’’بلاشبہ یہ یقینا ایک باعزت پڑھی جانے والی چیز ہے ۔ ایک ایسی کتاب میں جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے ۔‘‘ تشریح…: (۱) قرآن کریم میں اس بات کے واضح دلائل موجود ہیں کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ مثلاً ایک دلیل یہ ہے کہ یہ اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہے اور اس کا آسانی سے یاد ہوجانا اور کثرت سے اس کی تلاوت دلیل ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے
Flag Counter