Maktaba Wahhabi

212 - 440
چونکہ وہ دنیا میں مومنین کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھتے اور جہاد کرتے تھے لیکن وہ ایماندار نہیں تھے۔ بلکہ منافقت کے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔ اس لیے قیامت کے دن انہیں نور بھی محض وقتی طور پر دیا جائے گا۔ یہ ان کے ساتھ مذاق ہوگا۔ جیسے وہ دنیا میں اللہ کے ساتھ دھوکہ کرتے تھے اللہ بھی قیامت کے دن ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے۔ کہ انہیں پہلے تو نور دے دیں گے لیکن پھر ان سے چھین لیں گے تاکہ ان کی حسرت اور افسوس میں اضافہ ہو۔ دلیل…: اس بحث سے اصل مقصود یہ ہے کہ جب لفظ ’’نظر‘‘ کو بذات خود متعدی بنایا جائے تو اس کا معنی ’’انتظار‘‘ ہوتا ہے۔ جیسے آیت ’’أُنْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُوْرِکُمْ‘‘ میں ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہ ُفِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰئِکَۃُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْر،﴾ (البقرہ:۲۱۰) ’’وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی۔ اور کام تمام کر دیا جائے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ یعنی یہ لوگ صرف قیامت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور جب لفظ ’’نظر‘‘ کو ’’فی‘‘ کے ساتھ متعدی بنایا جائے تو اس کا معنی ’’غور و فکر کرنا‘‘ اور ’’عبرت پکڑنا‘‘ ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ (یونس:۱۰۱) ’’کہہ تم دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیا کچھ موجود ہے۔‘‘ اور دوسرے مقام پر ہے: ﴿اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض﴾ (الاعراف:۱۸۵)
Flag Counter