Maktaba Wahhabi

220 - 440
کا معنی ہے نعمت۔ لہٰذا ’’إلی ربہا‘‘ کا معنی ہے اپنے رب کی نعمت کو دیکھیں گے۔ اس سے ان کی مراد وہ ’’آلاء‘‘ ہے جو درج ذیل آیت میں بیان ہوا ہے: ﴿فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ، ﴾ (الرحمن:۱۳) ’’تو (اے جن و انس! ) تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟‘‘ حالانکہ گزشتہ آیت میں وارد ’’الی‘‘ حرف جر ہے۔ وہ نہ تو مفرد ہے اور نہ ہی اس کی جمع ’’آلاء‘‘ آتی ہے۔ انہیں ان کے اپنے مذہب کے لیے تعصب نے اس پر مجبور کیا اور یہ کلام اللہ میں کھلی تحریف ہے۔ وَقَالَ تَعَالٰي ﴿کَلَّا اِِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ،﴾ (المطففین:۱۵) (۱) فَلَمَّا حُجَبَ أُولٓئِکَ فِیْ حَالِ السَّخَطِ (۲) دَلَّ عَلَی أَنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَرَوْنَہُ فِیْ حَالِ الرّضَا، وَإِلّا لَمْ یَکُنْ بَیْنَہُمَا فَرْقٌ۔ (۳) ترجمہ…: اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وہ اس دن اپنے رب کے (دیدار سے) پردے میں کردئیے جائیں گے۔ ان (کافروں) سے اللہ تعالیٰ کے بحالت ناراضگی اپنے دیدار سے محروم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بحالت رضا اہل ایمان کو دیدار ہوگا۔ ورنہ تو کفار اور اہل ایمان کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ تشریح…: جب اللہ تعالیٰ کفار کو قیامت کے دن اپنے دیدار سے محروم رکھیں گے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے اور دیدار الٰہی سے صرف کفار کو ذلیل کرنے کے لیے محروم رکھا جائے گا۔ کیونکہ انہوں نے دنیا میں اس کا انکار کیا۔ لہٰذا ان کی یہی سزا ہوگی کہ انہیں دیدار الٰہی سے محروم رکھا جائے گا۔ اہل ایمان کو دیدار کے ساتھ عزت بخشی جائے گی اور اللہ تعالیٰ انعام کے طور پر اپنے دیدار سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ (۲)… یہ استدلال کا ایک انداز ہے۔ (۳)… لہٰذا امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو اپنے دیدار
Flag Counter