Maktaba Wahhabi

27 - 440
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم: امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کو سنت پر عمل کرتے ہوئے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے شروع کیا ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے: ہر عظیم الشان کام کو بسم اللہ سے شروع کیا جائے۔ یعنی ہر اہم اور عظیم کام کو سرانجام دیتے وقت بسم اللہ کو پڑھا اور لکھا جائے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کریم کو اور قرآن کریم کی ہر سورت کو اس سے شروع کیا ہے۔ اور جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا بلقیس کو اپنے خط کے آغاز میں لکھا: ﴿قَالَتْ ٰٓیاََیُّہَا المَلَؤُا اِِنِّی اُلْقِیَ اِِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیمٌ، اِِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،﴾ (النمل:۲۹تا۳۰) ’’اس (ملکہ) نے کہا اے سردارو! بے شک میری طرف ایک عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔ بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بے شک وہ اللہ کے نام سے ہے، جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ بسم اللہ الرحمن الرحیم، قرآن کریم کی ایک آیت ہے۔ کیونکہ یہ قرآن کے ساتھ نازل ہوئی تھی اور یہ سورۃ نمل کے علاوہ باقی سورتوں کے شروع میں تو صحیح مؤقف کے مطابق ایک مستقل آیت ہے۔ لیکن سورۃ نمل میں یہ مستقل آیت نہیں بلکہ آیت کا ایک حصہ ہے۔ یہ سورۃ فاتحہ اور اس کے علاوہ دیگر سورتوں میں شامل نہیں ہے بلکہ اسے محض سورت سے پہلے پڑھا جاتا ہے۔ اسے سورت نمل کے علاوہ کسی معین سورت کا ایک حصہ نہیں کہا جاسکتا اور سورۃ نمل میں بھی یہ آیت کا ایک حصہ ہے۔ قولِ مصنف: ’’باسمِ اللّٰہ‘‘ میں جار اور مجرور پوشیدہ عبارت کے متعلق ہیں۔ اور وہ ہے: ’’اَسْتَعِیْنُ بِبِاسْمِ اللّٰہِ‘‘ (میں بسم اللہ کے ساتھ مدد طلب کرتا ہوں) یا ’’أَتَبَارَکُ بِبِاسْمِ اللّٰہِ‘‘ (میں بسم اللہ کے ساتھ برکت حاصل کرتا ہوں) اور لفظ إسم: سُمُوٌّ سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے: بلندی۔ یا سِمَۃٌ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: علامت۔ علامت اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کوئی چیز ممتاز ہوتی
Flag Counter