Maktaba Wahhabi

40 - 440
جہاں تک السمیع، البصیر، الخبیر وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں اور ان میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مشتق ہوتی ہے۔ چنانچہ القدیر میں قدرت کا، السمیع میں سماعت کا، البصیر میں بصارت کا، العلیم میں علم کا اور الحکیم میں حکمت کا اثبات ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ہر نام، اس کی صفات میں سے کسی کو متضمن ہے۔ وہ تمام اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں جو اس نے خود اپنے لیے بیان کیے ہیں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بیان کیے ہیں۔ اور وہ تمام بلند و بالا اور عظمت کی صفات اسی کی ہیں جن سے کوئی چیز مشابہت نہیں رکھتی۔ مذکورہ آیات سورۃ طہ کی ابتدائی آیات ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿تَنْزِیْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی﴾ (طٰہ:۴) ’’اس کی طرف سے اتارا ہوا ہے جس نے زمین کو اور اونچے آسمانوں کو پیدا کیا۔‘‘ یعنی قرآن اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور وہ اس کا کلام ہے۔ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہ:۵) ’’وہ بے حد رحم والا، عرش پر بلند ہوا۔‘‘ یہ آیت مبارکہ ان سات آیات میں سے ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عرش پر استواء حقیقی کو ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ اس کے جلال کے لائق ہے اور وہ ہے اس کا عرش پر بلند ہونا۔ عرش اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ استوی کا معنی ہے: اللہ عزوجل نے قرار پکڑا، وہ بلند ہوا، اس پر چڑھا اور اُس نے اس پر قرار پکڑا۔ لیکن یہ تمام معانی ویسے ہی سمجھے جائیں گے جیسے اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لائق ہیں۔ نہ کہ مخلوق کے مخلوق پر قرار پکڑنے، بلند ہونے اور چڑھنے کی طرح۔ کیونکہ مخلوق اپنی اس ضرورت کی وجہ سے کسی چیز پر چڑھ بیٹھتی ہے کہ کہیں وہ گر نہ جائے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کو عرش اور آسمانوں کی کوئی حاجت نہیں بلکہ عرش اور آسمان اس کے محتاج ہیں۔ کیونکہ اس نے ان کو
Flag Counter