Maktaba Wahhabi

41 - 440
پیدا کیا اور انھیں اُس نے تھاما ہوا ہے۔ چنانچہ یہ تو اللہ کے محتاج ہیں مگر اللہ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا مخلوق کے مخلوق پر ٹھہرنے کے مشابہ نہیں۔ اگرچہ خالق و مخلوق کے استواء کا معنی ایک ہے لیکن کیفیت اور حقیقت مختلف ہے۔ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ …: اللہ تعالیٰ نے سات آیات میں یہی خبر دی ہے۔ ان سب میں ’’استوی علی العرش‘‘ کے الفاظ وارد ہیں (اعراف:۷، یونس:۳، رعد:۲، فرقان:۵۹، سجدہ:۴، حدید:۵۷) سورۃ طہٰ میں یہ الفاظ ہیں: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہ:۵) ’’وہ بے حد رحم والا، عرش پر بلند ہوا۔‘‘ ﴿لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ ﴾…: یعنی ساتوں آسمانوں میں فرشتے وغیرہ جو بھی مخلوقات ہیں وہ اسی کے لیے ہیں۔ ﴿وَ مَا فِی الْاَرْضِ ﴾…: یعنی زمین کی تمام مخلوقات، آدمی، چوپائے، جن، انسان، حیوانات، پرندے، زمین پر رینگنے والی، چلنے والی اور پائی جانے والی ہر مخلوق اللہ کی ملکیت ہے۔ وہی ان میں تصرف اور تدبیر کرتا اور انھیں رزق دیتا ہے۔ ﴿وَ مَا بَیْنَہُمَا﴾ …: یعنی آسمانوں اور زمین کے درمیان پائی جانے والی وہ مخلوقات بھی جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اسی کی ملکیت ہیں۔ ﴿ وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰی﴾ …: اور سطح زمین کے نیچے جو بھی مخلوقات، معدنیات اور مردے ہیں سب کے سب اللہ کی ملکیت ہیں اور اسی نے ان سب کو پیدا کیا۔ ﴿وَ اِنْ تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰی﴾…: اللہ تعالیٰ کے علم میں ظاہر و پوشیدہ سب برابر ہے۔ وہ ظاہر کو بھی سنتا ہے اور پوشیدہ کو بھی۔ ﴿وَاَخْفٰی﴾ …: یعنی پوشیدہ سے پوشیدہ تر چیز بھی اس پر مخفی نہیں۔
Flag Counter