Maktaba Wahhabi

70 - 440
البَصِیْرُ﴾ کے الفاظ تعطیل کا ردّ کرتے ہیں۔ یعنی ان لوگوں کا ردّ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی نفی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اسماء و صفات کا بھی اثبات کیا ہے۔ ﴿وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ میں ’’السمیع‘‘ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اسی طرح ’’البصیر‘‘ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے اور ’’سمع و بصر‘‘ اس کی صفات میں سے دو صفات ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی﴾ (طٰہٰ:۴۶) ’’میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ ’’أسمع وأری‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دیکھتا اور سنتا ہے جو کہ مخلوق بھی کرتی ہے۔ ﴿وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ (البقرہ:۲۶۵) ’’اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب دیکھنے والا ہے۔ ‘‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے، تم اللہ سے چھپ نہیں سکتے۔ ﴿الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ، وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ، اِِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ،﴾ (الشعراء:۲۱۸تا۲۲۰) ’’جو تجھے دیکھتا ہے، جب تو کھڑا ہوتا ہے۔ اور سجدہ کرنے والوں میں تیرے پھرنے کو بھی۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والاہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا: ﴿قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی﴾ (طٰہٰ:۴۶) ’’فرمایا ڈرو نہیں، بے شک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یعنی فرعون ان سے جو کچھ کہہ رہا تھا وہ اسے سنتا اور اس کی سرکشی اور طغیانی کو دیکھ رہا تھا۔ *****
Flag Counter