Maktaba Wahhabi

103 - 125
1)حدیث کا ترجمہ غلط کیاہے۔ 2)آیت مبارکہ سے غلط استدلال کیا ہے۔ اب قرآن کریم کا حکم ملاحظہ فرمائیں: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّٰهُ([1]) ’’اور لوگ آپ سے حیض سے متعلق سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے حیض ایک قسم کی تکلیف ہے اس لئے دوران حیض عورتوں سے دور رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب مت جاؤ اور پاک ہونے کے بعد ان کے پاس جاؤ جیسے اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ‘‘ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ: 1)حیض عورت کے لئے تکلیف کا باعث ہے۔ 2)اس حالت میں ان سے جماع کرنا منع ہے۔ 3)جب وہ اس سے پاک ہوجائیں تو ا ن سے جماع کرنا اللہ کے حکم سے جائز ہے۔ یہ تین نکتے اس آیت سے سمجھ میں آتے ہیں۔اب آئیں حدیث کی طرف: ’’عن عائشہ رضی اللّٰه عنہا کان یأمرنی فأتزر فیبا شرتی وأنا حائض ‘‘([2]) ’’ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے۔‘‘ قارئین کرام ! یہ ہے وہ حدیث جسے ڈاکٹر شبیرنے خلاف قرآن کہہ کر ٹھکرادیا حالانکہ یہ ڈاکٹر شبیرکی کم علمی کی ایک اور بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ یہ قرآن کے موافق ہے نہ کہ مخالف۔یہاں سب سے بڑی جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ مباشرت کے الفاظ سے ہوئی۔ڈاکٹر شبیرنے
Flag Counter