Maktaba Wahhabi

46 - 125
قارئین کرام ! اس حدیث پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے۔غالباً ڈاکٹر شبیرکی بھی یہی منشاء ہے۔اس اعتراض کے دو جواب ہیں(1)نقلاً(2)عقلاً۔ قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاء کا ذکر ہوا ہے۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّٰهِ([1]) ’’ تم پر مردار،خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ‘‘ اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیاء کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثناء بھی کردیا۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ’’جو شخص مجبور(بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں پس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘([2]) اگر آپ کے نزدیک اونٹنی کا پیشاب پینا ناجائز ہے تو اللہ رب العالمین نے جب مجبوری کی حالت میں حرام اشیاء کا استعمال حسب ضرورت جائز قرار دیا تو پھر بیماری اور مجبور ی کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چند انسانوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوادیا جس سے ان کو اللہ کے اذن سے شفاء بھی مل گئی تو آخر اس میں اعتراض کیا ہے ؟ ڈاکٹر شبیرنے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کیا ہے کہ(ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے)قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے۔
Flag Counter