Maktaba Wahhabi

60 - 125
قرآن مجید تو اس کے بالکل برعکس اصول بیان کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ([1]) ’’اور تمہاری عورتو یں سے جو حیض سے ما یوس ہوچکی ہیں اگرتمہیں کچھ شبہ ہو تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض شروع نہ ہوا ہو۔‘‘ مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العالمین عدت کے قوانین بیان کررہا ہے کہ، (1)وہ عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہوگیا ہو۔ان کی عدت تین ماہ ہے۔ (2)وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ان کی عدت بھی تین ماہ ہے(یعنی جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں) قارئین کرام !۔ عورت پر عدت کے احکام خاوند کے انتقال کے بعد لاگو ہوتے ہیں۔ یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نکاح ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔شوہر مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر عدت ہوگی۔ اب وہ لڑکی جس کو ابھی حیض نہیں آیا(یعنی بالغ نہ ہوئی)نکاح کے بعد اس کی عدت کا ذکر قرآن می وجود ہے اور عدت منکوحہ کے لئے ہے لہٰذا کم سن کا نکاح اور عدت کا بیان قرآن مجید می وجود ہے اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر ہوتا ہے۔ مزید برآں: ہر ملک وعلاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ وروپ جسمانی وجنسی بناوٹ عادت واطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاؤت وفرق ہوتا ہے۔جن ممالک می وسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہا وسم گرم
Flag Counter