Maktaba Wahhabi

110 - 190
جھوٹ بولنے والے اور ہر قسم کے جھوٹ کے متعلق ہے۔ اور اس کا معنی ہے: ’’میری طرف جھوٹ منسوب نہ کرو۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان[ میرے اوپر جھوٹ نہ باندھو] سے مفہوم [مخالف] کا جواز مراد نہیں ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قسم کے جھوٹ سے منع کرنے کے بعد اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر جھوٹ بولاجائے۔‘‘ [1] علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کا جھوٹ حرام ہونے میں ایک پہلو یہ بھی ہے ، کہ جھوٹ کا تعلق خواہ حلال و حرام سے ہو یا فضائل اعمال سے ، وہ قطعی طور پر حرام ہے۔ اس سلسلے میں امام نووی نے تحریر کیا ہے: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی حرمت کے بارے میں احکام اور غیر احکام جیسے ترغیب و ترہیب اور وعظ و نصیحت سب یکساں ہیں ، تمام معتبر اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی بھی بات کے بارے میں جھوٹ بولنا بہت بڑے گناہوں اور سنگین ترین برائیوں میں سے ایک گناہ اور برائی ہے، البتہ بدعتی گروہ کرامیہ[2] نے اس میں اختلاف کیاہے ۔ ان کا باطل گمان ہے ، کہ ترغیب و ترہیب کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے ، بہت سے جاہل اور بزعم خود پرہیز گاروں یا جنہیں ان اَیسے جاہل لوگ پرہیز گار سمجھتے ہیں ، نے کرامیہ کے موقف کی پیروی کی ہے۔‘‘ [3] امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مزید لکھا ہے:’’ان میں سے کچھ لوگوں کا خیال ہے، کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر جھوٹ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں ۔ ان کی اس من گھڑت بات اور بے تکے استدلال میں جہالت و غفلت کی انتہاہے اور قواعد شریعت سے ان کی ناواقفیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ انہوں نے اپنی اس
Flag Counter