Maktaba Wahhabi

122 - 190
و۔ الفاظ حدیث میں اشتباہ کی صورت میں [أَوْ کَمَا قَال] [1] کہنا: علمائے کرام نے بیان کیا ہے:’’جب حدیث کے راوی یا قاری کو اس کے کسی لفظ کے بارے میں اشتباہ کی بنا پر شک ہو ، تو اس کو چاہیے ، کہ حدیث ذکر کرنے کے بعد [أَوْ کَمَا قَال] کہے۔واللہ تعالیٰ أعلم ۔‘‘ [2] ز۔ قیاس سے ثابت حکم کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت : علامہ قرطبی نے تحریر کیا ہے:بعض فقہائے عراق قیاس سے ثابت شدہ احکام کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کے بارے میں کہتے ہیں :[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں یوں فرمایا]اسی بنا پر آپ ان کی کتابوں کو ایسی مرفوع احادیث سے بھری ہوئی دیکھتے ہیں ، کہ ان کے متون ہی ان کے جھوٹ ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ ان کی عبارات فقہاء کے فتاویٰ سے مشابہت رکھتی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت سے ان کا کوئی میل نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں وہ نہ تو خود ان کی کوئی صحیح سند ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی علمائے حدیث سے ان کی کوئی سند نقل کرتے ہیں ۔ یہ لوگ اس قطعی ممانعت کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور حدیث میں بیان کردہ مذمت اور وعید ان پر چسپاں ہوتی ہے۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کفر ہے۔ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کا تعلق ہے ، اگر جھوٹ بولنے والا اس کو جائز سمجھے، تو وہ کافر ہوتا ہے ، اور اگر وہ اس کو روانہ سمجھتے ہوئے ، جھوٹ باندھے ، تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، [لیکن] کیا وہ کافر ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں [علماء کا] اختلاف ہے۔ [3]
Flag Counter