Maktaba Wahhabi

56 - 190
فرمائیں ، کہ انہوں نے شرح حدیث میں اس بات کو خوب واضح فرمایا۔ ان میں سے تین کے اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ۱: علامہ ابن بطال نے تحریر کیا ہے :حدیث عبداللہ رضی اللہ عنہ کا کتاب اللہ میں مصداق [یہ آیت کریمہ ہے]: {إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ وَّإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ۔} [1] [بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے اور بلاشک و شبہ بدکار جہنم میں ہوں گے۔] سچ گوئی مومن کی سب سے بلند و بالا خصلت ہے۔ کیا تم نے ارشادِ باری تعالیٰ: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} [2] [اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔] کو نہیں دیکھا ،کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں سچ کو تقویٰ کے ساتھ ملا دیا ہے۔ [3] ۲: علامہ ابن العربی نے لکھا ہے: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ، کہ سچ وہ اساس ہے ، جو ہر نیکی کی طرف کھینچتا ہے ، کیونکہ جب کوئی شخص سچ بولنے کی کوشش کرنے والا ہو گا ، تو کبھی بھی نافرمانی نہ کرے گا۔ جب بھی وہ شراب پینا چاہے گا یا بدکاری کا ارادہ کرے گا یا کسی کو ایذا دینے کا سوچے گا ، تو اس کو خدشہ ہو گا، کہ اس سے کہا جائے گا :’’ کیا تم نے بدکاری کی ہے؟‘‘ یا ’’کیا تم نے شراب پی؟‘‘ اگر جواب میں چپ رہے گا، تو مشکوک ٹھہرے گا ، اگر جواب میں [ نہیں ] کہے گا، تو جھوٹا بنے گا اور اگر [ہاں ] کہے گا ، تو اس کی عزت
Flag Counter