Maktaba Wahhabi

126 - 372
لیکن اس واضح حقیقت کے باوجود کیا سبب ہے کہ زمانے میں اللہ کے مقابلے میں انسانی قوانین کوترجیح دی جاتی ہے اس کی آج بھی صورت حال یہی ہے،اس کی راقم الحروف کے نزدیک صرف ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ ہرزمانے میں اللہ کاقانون اپنی اصل شکل میں باقی نہیں رہا۔اس میں تأویل وتغیر کی صورت میں انسانی ذہن کاعمل دخل رہاہے۔جس کانتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مقابلے میں فقہاء کے جزوی قانون پرتوجہ زیادہ مرکوز ہوگئی ہے۔اورفقہاء کے قانون کوکلی قانون تسلیم کرلیاگیا۔جیساکہ اسلامی قوانین کاحال ہے۔اسلام کاقانون طلاق بھی اس سے مستثنی نہیں رہا۔ حیثیت نکاح دین اسلام کی نظر میں نکاح کی حیثیت غیر معمولی ہے اور اس کومیثاق غلیظہ یعنی پختہ عہد تعبیر کیا گیاہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ ﴿وَاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾ ۴؎ ’’اوروہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ نکاح دراصل امرشرعی ہے۔جس کے دوران میں مرد اورعورت ان دونوں سے یہ امر پورا ہوتاہے۔ اسی طرح علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وأجمع المسلمون علی ان اٰلنکاح مشروع ‘‘۵؎ ’’تمام مسلمانوں کااس پراجماع ہے کہ نکاح ایک شرعی امر ہے۔‘‘ تحفظ نکاح دین اسلام اپنے قائلین جن میں مرد اورعورت دونوں شامل ہیں۔ہدایت کرتاہے کہ شادی سے قبل خوب غور وفکر کرلیں اورجن امورکی تفتیش وتحقیق ضرور ی ہو۔ان کی خوب اچھی طرح تحقیق کرلیں۔یہاں تک کہ مرد اگراپنی زیر نظر بیوی کودیکھنا چاہے تواسلام اس کی اجازت دیتاہے۔کہ وہ اسے کسی عمدہ بہانے سے دیکھ لے۔اوریہی اختیار لڑکی کے ولی کودیا گیاہے۔اوراسے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر شادی نہ کی جائے۔اسی طرح لڑکی کانکاح اگربلوغت سے قبل کیاگیاہے توشریعت مطہرہ نے اسے اجازت دی ہے۔کہ بلوغت کی عمر کوپہنچنے کے بعد اگرچاہے تو اپنے اسی نکاح کوختم کردے۔معلوم ہوا کہ طرفین کی مرضی کے بغیر اسلام میں نکاح ممنوع ہے۔ لیکن جدید معاشرے میں اسلام کے سنہری اصول کو جس نظرسے دیکھا جاتا ہے۔وہ سب پر عیاں ہے کہ اسے قید سمجھا جاتا ہے۔اگر جدیدمعاشرہ اس اصول کواپناتاہے توحدسے تجاوز کرجاتاہے جو اس اصول اسلامی سے ناجائز فائدہ اٹھاتاہے کہ نکاح سے قبل ملاقاتیں اورمعاشقے رچانے لگتے ہیں اسلام ان دونوں چیزوں سے منع کرتاہے۔ کوئی مرد یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ خوبیوں کاسراپہ ہے۔کہ اس کے اندر کوئی عیب ونقص نہیں ہے۔اسی طرح کوئی عورت یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ وہ تمام عیوب ونقائص سے پاک اور مبرا ہے۔گاڑی کے دونوں پہیوں،مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی اچھائیوں اورنیکیوں پرنظر رکھنی چاہیے،تب ہی عائلی زندگی آسانی سے بسر ہوسکتی ہے۔ زوجین کے درمیان خوشگوارتعلقات کے قیام کے لیے مذکورہ اصول کی پیروی نہایت ضروری ہے۔معلوم ہواکہ مرد اورعورت اپنی نفسیات اورطبائع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔اللہ تعالیٰ کایہ کمال علم وقدرت ہے کہ اس نے ضدین میں نہ صرف اتحادپیداکردیا بلکہ دونوں کاوجود ایک دوسرے کے لئے ناگزیر سماجی ضرورت بن گیا۔ان میں سے کوئی فریق دوسرے فریق کونظر انداز کرکے بھی خوشگوار زندگی نہیں گزار سکتا۔ضدین کے اس اتحاد کوقرآن مجید میں وجودباری تعالیٰ کی دلیل کے طور پر پیش کیاگیاہے: ﴿وَمِنْ آٰیَاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْہَاوَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لأَٰیٰتٍ لِقَوْمٍ
Flag Counter