Maktaba Wahhabi

168 - 372
2۔اس کے معاملے میں غیرت کھاتے ہوئے اعتدال کی روش اختیار کرنا عورت کے معاملے میں مَرد کا غیرت مند ہونا،اس کی عظمت کی علامت ہے۔خود دار اورباوقار لوگ ایسی صفات سے متصف ہوتے ہیں۔مَرد کے دل میں غیرت کا جذبہ اس کی مَردانگی کی دلیل ہے۔مَرد کی سب سے بڑی خامی اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے معاملے میں غیرت مند نہ ہو۔اسی طرح مَرد کی سب سے اہم صفت جو کہ اس کی عزت وحمیت سے متعلق ہے ‘وہ عورت کے معاملے میں اس کا غیرت مند ہونا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھانا ہے۔ دین اسلام اس لیے آیا ہے کہ مکارمِ اخلاق کو مکمل کرے اور اخلاق کی تکمیل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس ذمہ داری کو اچھی طرح سے نبھایا جائے ‘تاکہ عورت ہر اُس چیز سے بچ سکے جو اُسے شک میں ڈال سکتی ہے۔اسلام نے اجنبی مَرد و عورت کے اختلاط کو اس لیے منع کیا ہے تاکہ عورت کو تہمت اور شکوک و شبہات کا نشانہ بننے سے بچایا جا سکے۔اسی طرح عورت کا بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نکلنا اور میک اپ وغیرہ کر کے خوشبو لگا کر چلنا بھی حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’تم حیا کیوں نہیں کرتے؟ تم غیرت کیوں نہیں کھاتے؟ کیا تم اپنی عورت کو اجازت دیتے ہو کہ وہ گھر سے باہر نکلے اور مَرد اُس کو دیکھیں اور وہ مَردوں کو دیکھے؟‘‘ حافظ سمعانی نے ’’الانساب‘‘ میں موسٰی بن اسحاق الخطمی پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بہت فصیح اللسان ‘متقی‘ثقہ اور کثیر السماع قاضی تھے۔ابوعبداللہ بن موسیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ موسیٰ بن اسحاق کی مجلس میں حاضر ہوا جبکہ وہ ’’رَے‘‘ کے قاضی تھے۔ایک عورت اُن کے سامنے پیش ہوئی جس کے ولی نے اس کے شوہر پرپانچ سو درہم حق مہر کا دعویٰ کیا۔شوہر نے اس دعویٰ کا انکار کر دیا۔قاضی نے گواہی مانگی۔ولی نے کہا میں اُن گواہوں کو حاضر کر دیتا ہوں۔قاضی نے ایک گواہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عورت کو دیکھ کر بتائے کہ کیا یہ وہی عورت ہے جس کے بارے میں وہ گواہی دے رہا ہے۔وہ گواہ کھڑا ہو گیا۔عورت سے کہا گیا تو بھی کھڑی ہو جا۔اُس وقت شوہر نے کہا تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ تو وکیل نے کہا یہ گواہ تمہاری بیوی کے چہرے کو دیکھے گا تاکہ وہ اس کو پہچان سکے۔اِس پرشوہر نے اسی وقت کہا کہ میں قاضی کے سامنے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس عورت کا اتنا حق مہر میرے ذمہ ہے‘ تم اس کے چہرے کو نہ کھولو۔عورت کو واپس بھیج دیا گیا اورجو اُس کے شوہر نے کہا تھا اس کی خبر اسے دی گئی تو اس نے کہا:’’میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے اس کو یہ حق مہر معاف کر دیا اور میں دنیا و آخرت میں اپنے اس حق سے دست بردار ہوتی ہوں‘‘۔تو قاضی نے کہا:’’یہ مکارمِ اخلاق میں سے ہے ‘‘۔ان قاضی صاحب کی ولادت ۲۱۰ھ میں ہوئی اور انہوں نے اہواز میں ۲۹۷ھ میں وفات پائی۔ ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی جگہ غیرت کا مظاہرہ کرے جہاں واقعتاً غیرت کی ضرورت ہو اور خواہ مخواہ ظن و تخمین سے کام نہ لے اور باطنی امور کو تجسس کے ذریعہ نہ کھولے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی مَرد رات کو اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس پر خواہ مخواہ تہمت اور الزام لگائے۔بعض مردوں کو تقوے کا ہیضہ ہو جاتا ہے اور ان کے نزدیک کل دین اپنی عورت کا پردہ بن جاتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں ان کو اس بات کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کوئی مرد ان کی بیوی کو پردے میں بھی نہ دیکھ سکے۔اور اگر گھر میں کوئی فون سن لے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے۔پردے کے احکامات اسلام میں ہیں لیکن ان میں اس درجے غلو کرنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔میرے ایک دوست نے ایک دفعہ شکایت کی کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کی اہلیہ کو گھر کے دروازے پر جا کر دودھ
Flag Counter