Maktaba Wahhabi

169 - 372
لینا پڑتا ہے جبکہ ان کے والد صاحب بھی گھر میں موجود ہوتے ہیں۔ہمارے دوست یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح وہ اپنے والدصاحب کو مجبور کریں کہ وہ دودھ لیا کریں۔میں نے اپنے ان دوست کو قرآن کی یہ آیت پیش کی: ﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَائِ حِجَاب ﴾۸؎ ’’اور جب تم ان(یعنی ازواج مطہرات ) سے سوال کرو کسی چیز کے بارے میں تو ان سے پردے کے پیچھے سے سوال کرو۔‘‘ مذکورہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے بارے میں بیان کیا کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو پردے کی اوٹ میں کوئی چیز دے سکتی ہیں اور ان سے ضرورت کے مطابق بات بھی کر سکتی ہیں۔بہر حال کہنے کامقصد یہ ہے کہ اسلام میں بے جا غیرت اچھی نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے گھروالوں کو مشقت اور تکلیف میں ڈال دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مِنَ الْغَیْرَۃِ مَا یُحِبُّ اللّٰہُ وَمِنْھَا مَا یُبْغِضُ اللّٰہُ ‘ فَاَمَّا الَّتِیْ یُحِبُّھَا اللّٰہُ فَالْغَیْرَۃُ فِی الرِّیْبَۃِ‘ وَاَمَّا الْغَیْرَۃُ الَّتِیْ یُبْغِضُھَا اللّٰہُ فَالْغَیْرَۃُ فِیْ غَیْرِ رِیْبَۃٍ)) ۹؎ ’’ایک غیرت ایسی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ایک غیرت ایسی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔پس جس غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ شکوک و شبہات کی جگہ غیرت کھانا ہے اور جس غیرت کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ شکوک و شبہات کے علاوہ غیرت کھانا ہے۔‘‘ 3۔عورت کے ساتھ حسن سلوک کرنا اللہ تعالیٰ نے روز مرہ زندگی میں عورت کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾۱۰؎ ’’اور اُن کے ساتھ معروف طریقے سے(حسن سلوک کے ساتھ) زندگی گزارو۔‘‘ حسنِ خُلق تمام صفاتِ کمال کو شامل ہے اور جو کوئی حسنِ اخلاق کو اختیار کر لیتا ہے وہ سعادت اور خوش بختی کو پا لیتا ہے اور سکون کی زندگی بسر کرتا ہے۔حکماء کا قول ہے کہ بیوی کے ساتھ حسنِ خلق اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک گھروں کو آباد کرتے ہیں۔مَرد کا عورت کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ عورت کے ساتھ زبان کے استعمال میں لغزش سے بچ سکے گا۔بہت سے جملے ایسے ہوتے ہیں جو کہ بات بڑھانے کا سبب بنتے ہیں اور اکثر اوقات زبان،انسان کی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔اور بہت سارے سر،زبان کی وجہ سے تن سے جدا ہو جاتے ہیں۔عورتوں کے حقوق کی تعظیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مَردوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿وَاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾۱۱؎ ’’اور وہ تم سے پختہ وعدہ لے چکی ہیں۔‘‘ ہمارے ہاں مردوں کی یہ عادت ہے کہ وہ لڑائی جھگڑے کے وقت اپنی بیویوں کو گالیاں دیتے ہیں ‘فضول بکواس کر تے ہیں ‘ان پر الزام تراشی کرتے ہیں اور ان کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔یہ بہت بڑا گناہ ہے اور ظلم ہے۔زمانہ جاہلیت میں بعض مرد اپنی بیویوں کو طلاق دیتے تھے پھر عدت ختم ہونے سے پہلے ان سے رجوع کر لیتے تھے تا کہ ان کو تنگ کر سکیں اور ان پر ظلم کر سکیں اس پریہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ﴾۱۲؎
Flag Counter