Maktaba Wahhabi

171 - 372
دنیا میں بھی عتاب کا شکارہوتا ہے اور آخرت میں بھی ظالموں میں سے اٹھایا جائے گا۔ شوہر پر لازم ہے کہ اپنی عورتوں کے ساتھ کھانے پینے،کپڑوں،رہائش اور وقت کے معاملے میں احسان کی روش اختیار کرے۔اُن سب کو ایک گھر میں اکٹھا کرنا ان کی رضامندی کے بغیر حرام ہے۔اور جس کی باری ہو اُس کو چھوڑ کر بلاضرورت کسی دوسری بیوی کے پاس جانابھی حرام ہے۔جب کہیں سفر کے لیے نکلے تو اُنکے درمیان قرعہ اندازی کر لے اور ایک کو اپنے ساتھ لے لے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کیا کرتے تھے۔اگر ایک رات کسی عورت کی حق تلفی کی ہو تو اُس کی قضا ادا کرے،کیونکہ اس کی قضا اس پر واجب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قولِ مبارک ہے: ((مَنْ کَانَتْ لَہُ امْرَاَتَانِ ‘ فَمَالَ اِلٰی اِحْدَاھُمَا ‘ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہٗ مَائِلٌ)) ۱۵؎ ’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف زیادہ جھک جائے تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌالَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِیْ حُکْمِھِمْ وَاَھْلِیْھِمْ وَمَا وَلُوْا )) ۱۶؎ ’’بے شک اللہ کے نزدیک انصاف کرنے والے قیامت کے دن رحمن کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے،اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو کہ اپنے فیصلوں میں،اہل و عیال کے بارے میں اور جن کے وہ نگران بنائے گئے ہوں اُن کے معاملے میں عدل سے کام لیتے ہیں۔‘‘ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’لَمَّا ثَقُلَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَاشْتَدَّ بِہٖ وَجْعُہُ اسْتَاْذَنَ اَزْوَاجَہٗ فِیْ اَنْ یُمَرَّضَ فِیْ بَیْتِیْ فَاَذِنَّ لَہٗ ‘‘۱۷؎ ’’جب(آخری ایام میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بیماری کی وجہ سے بوجھل ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے میرے گھر میں بیماری کے ایام گزارنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے اجازت دے دی۔‘‘ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً﴾۱۸؎ ’’پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے درمیان عدل نہ کر سکو گے تو ایک(بیوی) ہی کافی ہے۔‘‘ یہ آیت ان لوگوں کے رد ّکے لیے کافی ہے جو کہ مطلقاً تعدّدِ ازواج کو مباح سمجھتے ہیں۔دوسری طرف یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اگر تعدّدِ ازواج کی اجازت نہ ہوتی تو نہ جانے کتنی عورتیں ساری زندگی کے لیے گھر میں اکیلی بیٹھی رہتیں اور اُن کے شرعی نکاح کی نوبت نہ آتی۔اس طرح اُن کی نسل کا سلسلہ بھی رک جاتا اور فتنہ و فساد کے ایسے دروازے ان کے لیے کھل جاتے جن میں معاشرے کا بگاڑ ہے۔پس ایک ایسی اُمت جو کہ اپنی نسل کو بڑھانا چاہتی ہو اور اپنے مَردوں کی تعداد میں اضافہ چاہتی ہو‘ جو پاکیزگی و عفت کی علمبردار ہو اور رقص و سرود اور بے حیائی کے دروازوں کو بند کرنا چاہتی ہو‘ اس پر لازم ہے کہ تعدّدِا زواج کی تائید کرے اور اس کے فوائد کو لوگوں میں عام بیان کرے۔جن لوگوں نے تعدّدِ ازواج سے منع کیا،انہوں نے عورتوں کے لیے زنا وبدکاری کے دروازے کھول
Flag Counter