Maktaba Wahhabi

19 - 372
ساتھ لے کر دریا عبور کرنے لگے تو مفسرین کے کہنے کے مطابق بنی اسرائیل کے بارہ قبائل تھے۔اسی لئے ہرقبیلے کے لیے علیحدہ علیحدہ راستہ بن گیا جن کے ذریعے تمام قبائل بنی اسرائیل نے دریا عبور کیا اور جب فرعون اور اس کا لشکر دریا پار کرنے لگا تو اللہ نے دریا کو حالت اوّل کا حکم فرما دیا جس سے فرعون غرق ہوگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَر فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَشْرَبَھُمْ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِزْقِ اللّٰہ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْن﴾۷۵؎ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا۔تو ہم نے کہا کہ آپ علیہ السلام اپنا عصا پتھر پر ماریں تو اس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے تو تمام لوگوں نے اپنے مشروب کی جگہ کو جان لیا۔کھاؤ،پیؤ اللہ کے رزق سے اور زمین میں فساد کرتے ہوئے نہ پھرو۔ ٭ امام ابن جریبر طبری رحمہ اللہ،مذکورہ آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: ’’عن ابن عباس قال:ذلک فی التیہ،ظلل علیھم الغمام و أنزل علیہم المن والسلوی و جعل لھم ثیابا لاتبلی ولا تتسخ وجعل بین ظھرانیھم حجر مربع و أمر موسیٰ فضرب بعصاہ الحجر،فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا فی کل ناحیۃ منہ ثلاث عیون،لکل سبط عین ولا یرتحلون منقلۃ الاوجدوا ذلک الحجر معھم بالمکان الذی کان بہ معھم فی المنزل الأول‘‘ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میدان تیہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل پر بادلوں نے سایہ کردیا اور ان پر من و سلویٰ کا نزول ہوتا رہا اور ان کو ایسا لباس عطا کیاگیا جو نہ بوسیدہ ہوتا تھااور نہ میلا اور خراب ہوتا تھا اور ان کے پیچھے ایک مربع نما پتھر تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر عصا مارا جس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے،ہر کونے پر تین چشمے تھے۔ہرایک قبیلے کے لیے ایک چشمہ تھا جب بھی وہ چاہتے پانی پی سکتے تھے۔وہ پتھر ان کے قریب ہی تھاجس سے چشمے پھوٹے اور جس سے پانی پیتے تھے۔ اس آیت سے اس طرح استدلال کیا گیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بارہ قبائل تھے جن کے لیے بارہ چشمے پھوٹے تھے تو ان بارہ قبائل کے بارہ سردار ہوں گے جن کی نگہبانی و نگرانی میں وہ اپنی حیات و زندگی کے لمحات بسر کررہے تھے۔ خاندان کا آغاز و تاریخ ہم یہ بات پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ خاندان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا انسانی وجود۔جب اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا اور اسی میں سے جنس انسان کی دوسری صنف جس کو صنف نازک کانام دیا جاتاہے۔حضرت ’’حوا علیہا السلام‘‘ کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا تو دونوں صنفوں کا ملاپ ہوا تو خاندانوں کے خاندان سرزمین فانی پر جلوہ گر ہوتے چلے گئے جس کوقرآن مجید میں اس انداز سے بیان کیا گیاہے۔ ﴿یَاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَہ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّ نِسَائً وَّاتَّقُوا اللّٰہ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَام۔اِنَّ اللّٰہ کَانَ عَلَیکُمْ رَقِیْبًا﴾۷۶؎ ’’لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دئیے۔اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو،اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کوبگاڑنے
Flag Counter