Maktaba Wahhabi

208 - 372
’’اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام ٹھہرا یا ہے اور ان سے چیزیں(آگ،پانی وغیرہ ) روکنا اور خود لوگوں سے مانگنا اور اپنی بٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام ٹھہرایا گیا ہے اور تمہارے لیے قیل و قال(لایعنی باتیں ) اور کثرت سوال اور مال کو ضائع کرنا نا پسندیدہ ٹھہرایاگیا ہے۔‘‘ مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ألاأنبئکم باکبر الکبائر ثلاثا بلٰی یا رسول اللّٰہ قال الا شراک باللّٰه و عقوق الوالدین و کان متکئا فجلس فقال الا و قول الزور و شھادۃ الزور فما زال یقولھا حتی قلت لایسکت‘‘ ۳۹؎ ’’کیا میں تمہیں کبیرہ گنا ہوں کے بارے میں مطلع نہ کروں تو ہم نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر بیٹھے ہوے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خبر دار جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بار باردہرایا یہاں تک کہ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہی نہیں کریں گئے۔‘‘ اس اعتبار سے حقوق والدین کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اگر ماں باپ اولاد کے حقوق سے رو گردانی کریں گے تو جوابا ً والدین کو اپنی نافرمانی مول لینا پڑے گی اور اگر والدین اپنی اولاد کے حقوق کو دینی ضرورت سمجھتے ہوئے ان کی تربیت کریں گے تو ان سے فریضہ بھی ادا ہو جائے گا اور صدقہ جاریہ بھی بن جائے گا۔ وفات کے بعد نیکی کے ذرائع مسلمان آدمی کی روح جب اس دینا سے پرواز کرتے ہوے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتی ہے۔مسلمان کا جسد اور روح جدا ہوتے ہی انسان سے اعمال کا انقطاع ہو جاتا ہے بلکہ انسان جب موت و حیات کی کشمکش میں ہوتا ہے تو انقطاع اعمال کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ایسی کیفیت میں کی ہوئی اللہ سے التجاء اور دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تو بہ کا وقت اس سے قبل کا ہے ’’مالم یغرغر‘‘ اور اسی سلسلے کی کڑی یہ ہے کہ جب فرعون دریا کی موجوں کی آغوش میں آگیا اور اسے اس بات کا پختہ یقین ہو گیا کہ اب اللہ حقیقی کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے تو اس نے کہا(آمنت برب موسٰی و ہارون) تو یہ موت و حیات کی کشمکش میں کی ہوئی دعا فوز و فلاح کی منازل طے نہ کر سکی الغرض حقوق اولاد کی دینی ضرورت اس اعتبار سے بھی آشناوعیاں ہوتی ہے کہ اگر ان کے حقوق کی ادائیگی بطریق احسن انجام پائی ہو گی تو اولاد صالح اس وقت ایسے والدین کے لیے دعا گو ہو گی جب انسان کو ان کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہو گی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاۃ إلا من صدقۃ جاریۃ أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعولہ‘‘۴۰؎ ’’ یعنی جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تما م قسم کے اعمال کا تعلق اس سے منقطع ہو جاتاہے مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں جن کا انسان کے مرنے کے بعد بھی(قبر میں) تعلق قائم رہتا ہے:‘‘ 1۔ صدقہ جاریہ 2۔ ایسا علم جس سے اس کے مرنے کے بعد استفادہ کیا جائے(کتب لکھی ہوں،اولاد کو پڑھا یا ہو،اپنے شاگرد رکھے ہوں) 3۔ ایسے بچے اور اولاد جن کی اچھی تربیت کی گئی ہو کہ وہ اس کے وفات پا جانے کے بعد اپنے والدین کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ’’خیر ما یخلف المرء بعدہ ثلاثا ولدا صالحا یدعوالہ فیبلغہ دعاؤہ أو صدقۃ تجری فیبلغہ اجرہ ا
Flag Counter