Maktaba Wahhabi

21 - 372
حضرت مجاہد رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا‘‘ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت حوا علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کی نچلی پسلی سے پیدا ہوئیں اس حال میں کہ وہ سو رہے تھے۔جب وہ بیدار ہوئے تو انہیں نے کہا’’اثا‘‘ اور عرف عام میں اسے’’عورت‘‘ کہا جاتاہے۔ ٭ مزید حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں: ﴿وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا﴾یعنی حوا علیہا السلام’’خلقت من آدم من ضلع من اضلاعہ‘‘﴿وَخَلَقَ مَِنْھَا زَوْجَھَا﴾سے مراد حضرت حواء علیہا السلام ہیں جسے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلیوں میں سے ایک پسلی سے پیدا کیاگیاہے۔۸۲؎ ٭ امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ حضرت سدی رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں: ’’قال اسکن آدم الجنۃ،فکان یمشی فیھا و حشا لیس لہ زوج یسکن إلیھا،فنام نومۃ فاستیقظ فإذا عند رأسہ امرأۃ قاعدۃ خلقھا اللّٰہ من ضلعہ فسألھا ما انت؟ قالت امرأۃ قال ولم خلقت؟ قالت لتسکن الی‘‘۸۳؎ ’’اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت میں سکونت بخشی تو وہ بیقراری اور بے چینی کی حالت میں پھرتے رہتے تھے ان کیلئے کوئی بیوی نہ تھی جسکو وہ آرام و راحت کا ذریعہ بنائیں۔ایک دن وہ سوگئے اور انکی نیند جب پوری ہوئی تو وہ بیدار ہوئے تو اچانک انکے سر کے قریب ایک عورت بیٹھی تھی جسکو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایاتھا۔حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے سوال کیا کہ توکون ہے؟ کہا ’’عورت‘‘ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ تجھے کس لیے پیدا کیا گیا ہے۔حضرت حوا علیہا السلام فرماتی ہیں۔آپ کے آرام و راحت اور سکون کیلئے مجھے پیدا کیاگیاہے۔ الغرض حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی پیدائش سے خاندان کی تاریخ کاآغاز ہوچکا تھا،اور ان دونوں سے آج تک کے تمام انسان وجود میں ائے اور یہ بات اللہ کے فرمان﴿وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَاء﴾سے بھی مستنبط ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے خاندان کی توسیع اور دو بیٹوں کا تذکرہ اس طرح سے کرتے ہیں: ﴿وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ قَالَ لَا قْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہ مِنَ الْمُتًَّقِیْن﴾۸۴؎ ’’اور(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کو آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں(ہابیل اور قابیل) کا سچا واقعہ سنا جب دونوں نے قربانی کی پھر ایک(ہابیل کی) قربانی قبول ہوئی اور دوسرے(قابیل کی) قبول نہیں ہوئی(قابیل حسد سے جل گیا)کہنے لگا میں تو ضرور تیری جان لوں گا۔ہابیل نے کہا(کیوں؟ میرا کیا قصور ہے) اللہ تو پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے۔‘‘ ٭ امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے قابیل کو حکم فرمایا کہ تو ہابیل کی بہن کے ساتھ نکاح کرلے اور ہابیل کو کہا کہ قابیل کی بہن سے نکاح کرلے تو باپ کی بات پر ہابیل تو راضی اور متفق ہوگیا لیکن قابیل نے باپ کی بات کوٹھکرا دیا اور اس سے نفرت کی۔اور اپنے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی سے شادی کرنے پرراضی ہوا اور کہنے لگا ہم تو جنت کی اولاد ہیں اور ہابیل اور اس کی بہن زمین کی اولاد ہیں لہٰذا میں اپنی بہن کا زیادہ حق دار ہوں۔‘‘ بعض اہل علم کاکہنا ہے کہ قابیل کی بہن ہابیل کی بہن سے احسن اور خوبصورت تھی۔(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی
Flag Counter