Maktaba Wahhabi

266 - 372
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو طلاق دینی پڑی۔ ’’حتی یکون أبوک مثل عمر‘‘۴۸؎ ’’ ہاں اگر تمہارے باپ وہ مقام حاصل کرلیں جوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا تو پھر اس کے مشورے کو حکماًمان لے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ کی مذکورہ بات کے دو مفاہیم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تقوی و پرہیز گاری اور للہیت میں جو مقام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے وہ تیرے باپ کو حاصل نہیں ہے اس لیے تیرے والد کا مطالبہ بغض و عداوت اور حسد و کینہ پر مبنی ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کے سربراہ تھے لیکن یہ مفہوم اس وقت درست ہوگا جب واقعی اس شخص کی رہائش اپنے والدین سے الگ ہوگی۔یا مشترکہ رہائش میں والد کے بڑھاپے یا کوئی معذوری کی وجہ سے نظم و نسق کا اختیار اس کے پاس نہ رہا ہو۔ ملا علی قاری کا موقف اس مسئلہ میں ملاعلیٰ قاری کا موقف ایک دوسری انتہا پر ہے چنانچہ وہ رقمطراز ہیں: ’’ بیٹے پر لازم نہیں کہ وہ والدین کے حکم پر اپنی بیوی کو طلاق دے اگر چہ والدین کو اس کی بیوی(اور اپنی بہو ) سے شدید تکلیف ہی کیوں نہ پہنچ رہی ہو۔کیونکہ والدین کے مشورے پر عمل کرنے میں بسا اوقات خاوند کو ضرر پہنچتا ہے اس لیے والدین کی شفقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر وہ اس ضرر کا پوری طرح اندازہ کر لیتے تو وہ بیٹے کو طلاق دینے کا حکم اور مشورہ نہ دیتے اس کے باوجود ان کا طلاق پر اصرار کرنا نادانی ہے جو قابل التفات نہیں۔‘‘۴۹؎ ہمارے خیال میں علامہ موصوف کی مذکورہ رائے درست نہیں بلکہ موصوف اس سلسلہ میں دوسری انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ کسی بھی صورت،والدین کے کہنے پر عورت کو طلاق نہ دی جائے حالانکہ اگر والدین کا مشورہ اور حکم معقول علت اور مصلحت پر مبنی ہو تو پھر اطاعت ہر حال میں کی جائے گی بصورت دیگر نہیں۔ علامہ قاضی ابن العربی رحمہ اللہ اور امام منذری رحمہ اللہ کا فیصلہ اس مسئلہ میں قاضی ابن العربی رحمہ اللہ اور امام منذری رحمہ اللہ نے صحیح راہنمائی فرمائی ہے چنانچہ ابن العربی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں: ’’ ومن بر الإبن بأبیہ أن یکرہ ماکرہ أبوہ وإن کان لہ محبا قیل ویحب ما یحب أباہ وإن کان لہ کرہ من قبل بید ان ذلک ان کان الأب علی بصیرۃ فإن لم یکن کذلک استحب لہ فراقہا لارضائہ ولم یجب علیہ کما یجب فی الحالۃ الأولی فإن طاعۃ الأب فی الحق من طاعۃ اللّٰہ ‘‘۵۰؎ ’’ بیٹے کے لیے اپنے والد سے نیکی اور حسن سلوک کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو والد نا پسند کرتا ہے اسے وہ بھی ناپسندکرے اگرچہ وہ اس سے نفرت کرتا ہو البتہ یہ بات یاد رہے کہ والد کا مشورہ اور حکم اس وقت ہے جب والد بصیرت و درستگی پر ہو،لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھروالد کو راضی کرنے کے لئے بیوی کو طلاق دینا مستحب تو ہو سکتا ہے لیکن اس طرح واجب ہرگز نہیں جس طرح کہ پہلی حالت(والد کے اصابت رائے ) میں واجب ہے کیونکہ والد کے حق پر ہونے کی صورت میں اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے زمرے میں شامل ہے۔‘‘
Flag Counter