Maktaba Wahhabi

267 - 372
امام منذری رحمہ اللہ نے بھی سنن ابوداؤد کی تہذیب اور شرح میں من و عن یہی فیصلہ دیا ہے۔۵۱؎ جہاد کے لیے والدین کی اجازت اور ان سے مشاورت جہاد فی سبیل اللہ کے لیے والدین کی اجازت اور ان سے مشاورت کرنا ضروری ہے اور شارع کے فرامین میں جو ’برالوالدین‘ کا حکم دیا گیا ہے اس کا یہی مطلب و مقصود ہے اور برالوالدین کا تقاضا بھی یہ ہے کہ انہیں محتاجی کی حالت میں اکیلے نہ چھوڑا جائے اس ارادے سے کہ جہاد سے افضل عمل ہی نہیں بلکہ والدین کی خدمت ایسی حالت میں افضلیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔مگر جب جہاد فرض عین ہو جائے پھر والدین اور اولاد سب پر جہادکرنا ضروری ہے۔ جہاد تین صورتوں میں فرض عین ہوتا ہے۔ 1۔ جب حربی دشمن سے جنگ کے لیے انسان میدان میں اتر آئے۔ 2۔ جب کفار ملک پر حملہ آور ہو جائیں۔ 3۔ جب حاکم وقت سب کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم صادر کردے۔ جہاد کے لیے والدین کی اجازت اوران سے مشاورت کرنے کے دلائل حسب ذیل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیاکہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وقت پر نماز ادا کرنا،پھر دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا،پوچھا گیاکہ پھر کونسا؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ،،۵۲؎ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ثابت ہوا کہ والدین کے حقوق جہاد پر مقدم ہیں۔لیکن یہ اس وقت ہے جب جہاد فرض عین نہ ہوا ہو۔۵۳؎ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جاء رجل إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاستأذنہ فی الجہاد فقال أحی والداک قال نعم قال ففیہما فجاہد ‘‘۵۴؎ ’’ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ وہ بولا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم ان دونوں کی خدمت میں جدو جہد کرو۔
Flag Counter