Maktaba Wahhabi

43 - 372
٭ اسی طرح یمن کے چیف جسٹس امام شوکانی رحمہ اللہ(م۱۲۵۵ھ )رقمطراز ہیں: ’’ویجب علی من خشی الوقوع فی المعصیہ‘‘۶؎ ’’ نکاح کرنا،ہر اس شخص پر واجب ہے جسے معصیت کے ارتکاب کا خوف ہو۔‘‘ علاوہ ازیں سید امیر علی رحمہ اللہ،سورۃ نور کی آیت ۳۲ کے تحت،نکاح کے حکم کے بارے میں اس انداز سے بحث کرتے ہیں: ’’واضح ہو کہ أنکحوا صیغہ امر ہے اوروہ کبھی وجوب کے لئے ہوتا ہے اور یہ اصل ہے اور کبھی استحباب کے لئے جبکہ قرینہ ہو۔پس یہاں کلام ہے کہ یہ حکم کس قسم کا ہے۔بعض نے کہا کہ واجب ہے اور بعض نے کہا کہ مستحب ہے اور بعض نے بہت ہی نزول کیا کہ یہ امر مباح ہے۔شیخ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا کہ ایک جماعت علماء کا مذہب ہے کہ نکاح واجب ہے ہر ایسے شخص پر جو نکاح کی قدرت رکھتا ہو۔اقوال قدرت میں سے یہ کہ مہر کی اور نان نفقہ کی اور حقوق ادا کرنے کی قدرت ہو تو واجب ہے اور دلیل ان کی ظاہر قولہ علیہ السلام یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج۔الحدیث فی صحیح البخاری و مسلم’’یعنی اے گروہ شباب جو تم میں سے قدرت رکھتا ہو وہ تزوج کرلے کیونکہ نکاح خوب ڈھانپنے والا نظر کا اور بڑھ کر محفوظ کرنے والا فرج کا ہے اور جس کو استطاعت نہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہے یہی اس کے لئے خصی ہونا ہے‘‘۔۷؎ ٭ نکاح کی بنیاد اجر و ثواب پر ہے جبکہ معاہدہ کی بنیاد متاع دنیوی پر ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نکاح نہ صرف انبیاء کی سنت ہے بلکہ اس پر اجر و و ثواب بھی ملتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’وفی بضع أحدکم صدقۃ،قالوا:یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأتی أحدنا شھوتہ ویکون لہ فیھا أجر،قال:أرء یتم لو وضعھا فی حرام أ کان علیہ فیہ وزر فکذلک إذا وضعھا فی الحلال کان لہ أجر‘‘۸؎ ٭ نکاح کے آداب میں مرد و زن دونوں کو خاندان(قلعہ بنانے)میں شریک کاررکھایا گیا ہے جس کا مقصد محض جنس پرستی نہیں۔بلکہ خاندانی قلعہ کی تعمیر ہے گویا اگرچہ جنسی تسکین کا حصول ایک لازمی امر ہے لیکن مقصد بہرحال خاندان کی تشکیل ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات اس پر دلالت کرتی ہیں۔ ٭ مرد و زن کے درمیان ’نکاح‘ کا تعلق قائم کرنے کے لئے مرد کو ’محصنین‘(قلعہ میں لانے والے)اور عورت کو ’محصنت‘(قلعہ بند)کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ ٭ نکاح کو قلعہ(حصن )سے تعبیر کرکے اسلام کے خاندانی تصور کی بنیاد واضح کی گئی ہے ٭ نکاح کو قلعہ قرار دے کر تاکیداً غیر مسافحین یا غیر مسافحۃ کے الفاظ سے مرد و زن دونوں کو نہ صرف جنس پر اکتفا کرنے کے ارادہ سے منع کردیا گیا بلکہ اس کی وہ بنیاد بھی ختم کردی جو معاشقہ کے بعد نکاح کرنے کی صورت میں خرابی کا باعث ہوتی ہے۔لہٰذا عربی زبان کا لفظ ’خدن‘ جس کی جمع ’ اخدان‘ قرآنی استعمال کے مطابق عاشق ومعشوق کے لئے مستعمل ہے۔ ٭ قرآن مجید میں عورت کے لئے تین مقامات پر لفظ’’ مُحْصِنٰتٍ‘‘استعمال ہوا ہے اور تینوں جگہ اس سے مختلف معانی مراد ہیں سورۃ المائدہ میں’’آزاد بے خاوند عورت‘‘سورہ نساء آیت پچیس میں’’لونڈی بے خاوند‘‘جبکہ سورہ نساء ہی کے شروع میں’’شادی شدہ عورت‘‘کے لئے مستعمل ہے۔
Flag Counter