Maktaba Wahhabi

44 - 372
الغرض شادی سے پہلے یا بعد عورت آزاد ہو یا لونڈی،اس کے لئے لفظ محصنت(قلعہ بند)کا استعمال یہ بتاتا ہے کہ اسلام میں عورت(شریف زادی)ہر حال میں خاندان کی حفاظت میں رہتی ہے۔شادی سے پہلے والدین کی حفاظت میں جبکہ بعد میں خاوند کی حفاظت میں۔لہذا جو عورت اس طرح حفاظت میں نہ ہو وہ آوارگی کے زمرے میں آتی ہے اور آوارہ عورتوں کے شرعی احکام علیحدہ ہیں۔مثلاً ان کے نکاح مومنوں سے حرام ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُوْمِنِیْن﴾۹؎ ’’ آوارہ عورتیں مومنوں پر حرام ہیں۔‘‘ جبکہ اس کے برعکس مغرب اپنی پوری سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی کے باوجود ’وحی‘ کی روشنی سے محرومی کے باعث اب تک انسان کو عام جانور باور کرتے ہوئے نکاح کا مقصد صرف جنسی تسکین ہی قرار دیتا ہے۔حالانکہ انسان کی نفسیات جانور سے قطعاً مختلف ہے۔عام جانوروں کا نہ صرف جنسی تعلق وقتی ہوتا ہے بلکہ بچوں سے محبت بھی محدود وقت کے لئے ہوتی ہے جبکہ دو انسانوں کی بذریعہ نکاح مستقل طور پر باہمی وابستگی،ارادتاًرفیق حیات بننا،باہمی تعاون،اولاد و والدین اور اعزہ واقارب سے تعلق اور خاندانی رشتوں میں منسلک ہونا وغیرہ،یہ وہ اوصاف ہیں جن سے معاہدہ اورنکاح کافرق واضح ہوجاتاہے۔ ٭ عارضی یا مدت مخصوصہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہے جبکہ معاہدہ ہوسکتا ہے چونکہ نکاح کا مقصد خاندان کی تشکیل ہے لہذا مدت مخصوصہ کے لئے نکاح کرنا،ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم نہی عن المتعۃ و عن لحوم الحمر الأھلیۃ زمن خیبر‘‘۱۰؎ ’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے زمانہ میں متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔‘‘ اسی طرح ربیع بن سبرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’ أنہ کان مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال یاأیھا الناس إنی قد کنت آذنت لکم فی الاستمتاع من النساء وإن اللّٰہ قد حرم ذلک إلی یوم القیمہ فمن کان عندہ منھن شیء فلیخل سبیلہ ولاتأخذوا مما آتیتموھن شیئا‘‘۱۱؎ ’’کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔آپ نے فرمایا:اے لوگو،میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی۔اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا ہے۔اب جس کے پاس ایسی کوئی عورت ہو،اسے چاہیے کہ اسکا راستہ چھوڑ دے۔اور جو کچھ انہیں دیا ہے ان سے واپس لے لو۔‘‘ ٭ نکاح میں مخالف جنس کا ہونا شرط ہے جبکہ معاہدہ میں ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿أَتَاْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْن وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُوْن﴾۱۲؎ ’’کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لئے جو کچھ پیداکیاہے اسے چھوڑ دیتے ہو بلکہ تم لوگ توحد سے ہی گزر گئے ہو۔‘‘ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
Flag Counter