Maktaba Wahhabi

60 - 154
سے بھی بعض نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ اس حدیث کا مذکورہ رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موصوف نے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ (نعوذ باللّٰه من ذلک) اگر اس حدیث میں رفع یدین کی ممانعت ہے تو پھر موصوف نماز کے شروع میں، نماز وتر میں اور عیدین کی نماز میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں؟ موصوف نے جس آیت میں تحریف کی ہے ان الفاظ کے ساتھ قرآن کریم میں کوئی آیت موجود نہیں ہے اور اس آیت میں ہاتھوں کو روکنے کے متعلق جو حکم دیا گیا ہے وہ شروع میں جہاد سے رُکنے کا حکم تھا لیکن جب مسلمان مدینہ طیبہ میں مجتمع ہو گئے تو انہیں جہاد کا حکم دیا گیا جیسا کہ اس آیت کے اگلے حصہ میں جہاد و قتال کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جہاد کے متعلق نازل فرمائی لیکن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انکاری نے اس آیت کو رفع یدین نہ کرنے کی دلیل بنا لیا اور تحریف کے اس فن میں اس نے یہود و نصاریٰ کی ……… ع یہ مسلم ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود اسے کتابت کی غلطی بھی نہیں کہیں گے کیونکہ موصوف نے اس آیت کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ موصوف نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے الذین فلم فی صلوتھم خاشعون کی تفسیر میں من گھڑت تفسیر ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہ جو نمازوں کے اندر رفع یدین نہیں (وہ خشوع والے ہیں) جبکہ سیدنا عبداللہ بن عباس ت سیت صحیح سند کے ساتھ رفع یدین کرنا ثابت ہے دیکھئے: مصنف عبدالرزاق ۳/۶۹۔ رقم:۲۵۲۳۔ و مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۲۳۵، جزء رفع الیدین للبخاری ص ۶۳، مسائل احمد بن حنبل ۱/۲۴۴ و اسنادہ حسن صحیح۔ اس کے مقابلے میں تفسیر ابن عباس ساری کی ساری مکذوب و موضوع ہے۔ اس کے بنیادی راوی محمد بن مروان، الھدی اور صالح تینوں کذاب ہیں اور موصوف اپنے مثل ان کذابین کی روایت کو
Flag Counter