Maktaba Wahhabi

65 - 154
’’بھرے مجمع میں حضرت جی کی کسی تقریر پر ایک نو عمر دیہاتی بے تکلف پوچھ بیٹھا کہ حضرت بی عورت کی شرمگاہ کیسی ہوتی ہے؟ اللہ رے تعلیم سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکا لیں مگر آپ مطلق چین بہ جبین نہ ہوئے بلکہ بے ساختہ فرمایا: جیسے گیہوں کادانہ۔‘‘ (تذکرہ الرشید ج۲ ص:۱۰۰)۔ ان بزرگوں کا تجربہ تھا، مجع تو واقعی ان علمی انوارات کو سن کر حیران و ششدر ہوا ہو گا اور ان تجربہ کار اساتذہ کے ہاتھوں تیار ہونے والے امین اوکاڑوی جیسا شاگرد جن کی تجلیات سے آخر عوام الناس کیوں نہ مستفیض ہوئے ہوں گے اور پھر جنہیں حلالہ جیسی سہولت بھی حاصل ہو اور کتنی ہی شرمگاہیں ہیں انہوں نے حلالہ کے ذریعے اپنے لئے حلال کی ہیں۔ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: ولو نطر المصلی الی المصحف و قرأ منہ فسدت صلاتہ لا الی فرج امرأۃ بشہوۃ لأن الأول تعلیم و تعلم فیھا لا الثانی (الاشباہ والنظائر ص ۴۱۸، طبع میر محمد کتب خانہ کراچی) اور اگر نمازی مصحف (قرآن) کی طرف دیکھ لے اور اس میں کچھ پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے، اور اگر عورت کی شرمگاہ کی طرف بنظر شہوت دیکھ لے تو اُس سے نماز فاسد نہ ہو گی اس لئے کہ اول تعلیم ہے اور اس میں تعلیم ہے نہ کہ ثانی (کہ وہ تعلیم سے خالی ہے)۔ غور فرمائیے کہ حنفیوں کے ہاں شڑمگاہ کی کتنی اہمیت ہے کہ اسے دورانِ نماز بھی نمازی شہوت کے ساتھ دیکھتا رہے تو حنفی کی نماز کو کچھ نہیں ہو گا۔ البتہ اگر قرآن کریم کی آیت یا قرآن کا کوئی فقرہ پڑھ لیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیا ایمان بالقرآن کا یہی تقاضہ ہے؟ صحیح بخاری میں ہے کہ:
Flag Counter