Maktaba Wahhabi

101 - 467
کی گئیں ہر بدو کو کاشتکاری کے لیے زمین کا مناسب حصہ دیا گیا۔ ایسا بدوی زندگی میں پہلی بار ہوا کہ وہ زمین کے مالک بن گئے۔ یہ زمین اجتماعی نہیں بلکہ ان کی انفرادی ملکیت تسلیم کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ نئے بسنے والوں کو انفرادی ملکیت کا علم ہوا۔ اب جب وہ اپنی زمین پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں ملکیت کا تصور نئے انداز سے ابھرتا ہے اور ان کی زندگی میں ٹھہراؤ آچکا ہے۔ 3۔ یہ حقیقت میں ترقی کا ایک نیا راستہ تھا۔ اس پروگرام کو کامیابی سے مکمل طور پر ہمکنار کرنے کےلیے شاہ عبدالعزیز نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تاکہ ان بدو قبائل کے افراد سے وہ ایک ایسی نئی جماعت تیار کر سکیں جو قبائلی تعصب سے پاک ہو۔ 4۔ بدؤں کو متمدن بنانے کے بعد نئی آباد کاری نے ہر بدؤ کو ایک نئی زندگی دی۔ اور یہ سب کچھ ذاتی ملکیت کے بدو لت ہوا۔ بعد میں اس کے بہترین نتائج سامنے آئے۔ علماء و مشائخ کا تقرر:درس توحید کا اہتمام اور صحیح عقیدہ کی تبلیغ سے ان بدؤں میں ایک نئے تصور نے جنم لیا۔ یہ تصور وطن سے محبت، ولی الامر سے محبت اور وفاداری کا تصور تھا۔ یہ حقیقت میں ایک عظیم کامیابی تھی۔ ہر عالم اور امام کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ تمام لوگوں کو ان تعلیمات سے روشناس کرائے۔ اور جب ہجر کی تعداد میں ضافہ ہوا تو معلمین کی طلب بڑھنے لگی۔ لہذا زیادہ افراد کو تعلیم و تربیت کے لیے ریاض بلایا گیا۔ تعلیم سے مالا مال کرنے کے بعد ان کو ذمے دار ٹھہرایا گیا کہ وہ لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ 6۔ ہجر کے نظام میں مساجد کی تعمیر بھی شامل تھی۔ ہجر والے مسجدوں میں نماز کی
Flag Counter