Maktaba Wahhabi

154 - 467
امان کی بحالی اور جان ومال کا تحفظ تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے اس کام کے لیے بھی منصوبہ بندی کی اور شریعت کا نفاذ عملی طور پر کیا۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’ میں آپ کو خوشخبری سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ساتھ بلد حرام بلندی پر ہے، امن میں ہے، راحت میں ہے اور ان شاء اللہ میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ اس مقدس ملک میں امن و امان اور اطمینان ہو۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہم بھی آپ کے خون کا، عزتوں کا، اور مال کا احترام کریں۔ شریعت کے رو سے نصیحت کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔‘‘ امین الریحانی اپنی کتاب نجد و ملحقاتہ صفحہ 324 پر لکھتے ہیں ’’یہ ایک تعجب کی بات تھی کہ شریف مکہ کی بیعت بحیثیت خلفیہ کے ہونے کے بعد بیان دینے، مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے، وفدوں سے ملنے اور انگریزوں کے اعلیٰ نمائندوں سے ملاقات کے دوران وہ اپنے آپ کو امیر المومنین اور خلیفیۃ المسلمین کہتا رہا۔ اسی سال جب شریف مکہ حسین بن علی مکہ مکرمہ واپس آیا تو ریاض میں امام عبدالرحمن کی زیر صدارت اجتماع ہواجس میں علماء اور قبائلی سرداروں اور خود شاہ عبدالعزیز نے شرکت کی۔‘‘ شاہ عبدالعزیز کی یہ عادت تھی کہ وہ کسی کام کی اس وقت تک ابتداء نہیں کرتے تھے جب تک خود اس کے تمام پہلوؤں پر غور نہیں کر لیتے تھے کہ اگر مداخلت کی جائے تو نکلنے کا راستہ معلوم ہو۔ نیز یہ کہ اس کی مثبت اورمنفی نتائج کیا سامنے آئیں گے اور فائدہ کی نسبت کتنی ہو گی۔ اس مسئلہ میں سیاسی فضا شاہ عبدالعزیز کی حمایت میں تھی۔ لہذا اب سعودی
Flag Counter